Ertugrul drama
Ertugrul Drama Ki Ek Jhalak

فلمی اور ڈرامائی چیزیں دو طرح سے پیش کی جاتیں ہیں: ایک طریقہ تو یہ ہوتا ہے کہ سارے کردار اور سارے واقعات اور متعلقہ چیزیں حقیقی ہوتی ہیں، اور نیک مقاصد کے لیے اسے فلمایا جاتا ہے. اسلامی ادب اور ذرائع ابلاغ میں یہ مقبول ہے. 
دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ *تخیلاتی فکرہ* پر صالح مقاصد کے لیے پورا منظر، کردار اور دیگر چیزیں مرتب کرکے اسے فلمایا جاتا ہے. یہ طریقہ بھی اسلامی نقطہ نظرسے ادب و ذرائع ابلاغ میں مقبول ہے. ارطغرل دراصل ان دونوں کا مجموعہ ہے. صالح مقاصد کے حصول کے لیے کچھ حقیقی اور تخیلاتی واقعات کو فلما کر پیش کیا گیا ہے.


*مغربی ڈراموں اور ذرائع ابلاغ کا اثر*

اس بات سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ رائے عامہ کی ہمواری، ذہن سازی اور رجحان سازی کا سب سے بڑا ہتھیار ہے. اور اس ہتھیار کا استعمال مغربی طاقتوں اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں بہت کامیابی سے کیا ہے. بالفاظ دیگر اسلام کے خلاف تہذیبی، نظریاتی اور ثقافتی جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار ذرائع ابلاغ ہی ہے. اسلامی تاریخ، اسلامی شریعت، اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی نظریہ، مسلم شخصیات اور مسلم علاقے کو پوری دنیا کے سامنے گھناؤنا اور ڈراؤنا بنا کر ایک زمانہ سے پیش کیا جارہاہے. مثال کے طور پر ہم اگر ھالی ووڈ فلموں پر نظر ڈالیں تو پاتے ہیں کہ اس نے ایسی بے شمار فلمیں پردہ سیمیں پر اتاری ہیں، جن میں عام طور پریت مسلمانوں کو تشدد پسند، ظالم، غیر مہذب، شہوت پرست، عیاش اور علم دشمن بنا کر پیش کیا گیا ہے. 

بعض فلموں میں مسلم کرداروں کو بچوں کا قتل کرتے ہوئے دکھایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کلمہ اور اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے. اس طرح کے مناظر سے لوگوں کو یہ تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ کلمہ والے بچوں کے قاتل ہوتے ہیں. اسی طرح ھالی ووڈ فلموں میں ان مسلمانوں کو دہشت گرد اور قاتل و غارت گر بنا کر پیش کیا گیا ہے جو مسلمان اپنے اپنے ممالک میں اور اپنی اپنی سرزمین پر مغربی سامراج اور ان کے مظالم کے خلاف مسلح جد و جہد کررہے ہیں یا کررہے تھے. مثلا فرانس و امریکہ اور دوسرے غیر مسلم قابضوں کے خلاف جد و جہد کرنے والے الجزائر، چیچینیا، فلسطین، عراق، افغانستان ودیگر مسلم ممالک کے مسلمانوں کو ایسا دکھایا گیا ہے گویا وہ زمین پر فساد کرنے والے لوگ ہیں اور عام انسان ان کے مظالم سے تنگ آچکے ہیں. جسے حقائق کا علم نہیں ہوگا وہ اسے ہی حقیقت سمجھ کر یقین کرلے گا، اور دنیا نے یہی کیا. 
9/11 کے بعد جب جارج ڈبلیو بش نے کہا کہ "یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ". اس نے یہ کہہ کر بیک لفظ امریکی قبضہ کے خلاف ہونے والی جد و جہد کو دہشت گردی بنا دیا، 

اور پھر پوری دنیا میں ذرائع ابلاغ پر اسلام اور مسلم مخالف نفرت انگیز مواد کی سونامی آگئی، ہماری تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا گیا. اور دنیا نے اس نفرت کو اور ہماری مسخ شدہ تاریخ کو بھی قبول کرلیا. بد اخلاقی، جنسی انارکی، بے راہ روی، آزادانہ میل جول، ضیاع وقت اور گھٹیا حرکتوں کی حوصلہ افزائی پر مبنی فلموں، ڈراموں اور ویب سیریز کے اثرات کا آپ از خود جائزہ لےلیں.


*ہندوستانی فلموں اور ڈراموں کا اثر سماج پر*

اب ہندوستانی ماحول میں دیکھیں تو بالی ووڈ فلموں اور ڈراموں میں بھی مسلم بادشاہوں کو شہوت پرست، عورتوں کا رسیا اور قابض و لٹیرا دکھایا جا رہا ہے. اسی طرح عام مسلمانوں کے کردار کی بات کریں تو بے شمار بالی ووڈ کی فلموں اور ڈراموں میں ایک عام مسلمان کو متشدد، جرائم پیشہ، زانی، شرابی، قاتل اور جاہل بنا کر پیش کیا جاتا ہے. اس کا اثر ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کے ذہنوں پر بہت تیزی سے پڑ رہا ہے. واقعات شاہد ہیں. 
ذرائع ابلاغ کے استعمال سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات نقش کی جا رہی ہے کہ اگر دنیا میں کہیں کوئی جرم ہورہا ہے، فساد ہورہا ہے یا قتل و غارت گری ہورہی ہے تو یہ سب کرنے والے صرف مسلمان ہوتے ہیں. ان کی تاریخ بھی قتل و غارت اور نا انصافی پر مبنی ہے. وغیرہ وغیرہ. 


اس سائٹ کی دوسری مشہور تحریریں 

کلک کرکے ضرور پڑھیں 

مسٸلہ فلسطین,اسراٸیل,غزہ اورموجودہ صورتحال Masale falistin


ان سب کے باوجود مسلمانوں کی طرف سے ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان منفی پروپیگنڈہ سے لڑنے اور شکست دینے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا. ظاہر سی بات ہے کہ *جب آپ خود دنیا سے اپنا تعارف نہیں کرائیں گے تو آپ کا دشمن آپ کا تعارف کرائے گا. جو تعارف کرانے کے وسائل پر قابض ہے، اور جب دشمن آپ کا تعارف کرائے گا تو وہ آپ کو چور، لٹیرا، ظالم، قاتل اور زانی بنا کر ہی دنیا کے سامنے پیش کرے گا.* حقائق دنیا کے سامنے لانے، ان سب جھوٹ کا پردہ فاش کرنے اور کاؤنٹر اٹیک کے لیے اسی سطح کی کوشش ضروری تھی جس سطح سے مغرب اسلام کے خلاف کررہا تھا. ہم نے فلموں اور ٹیلیویژن کی برائیوں پر زمین و آسمان تو ایک کردیا لیکن اس کا متبادل کچھ بھی نہ پیش کر سکے. امیدیں کچھ مسل

م ممالک سے تھیں، جن کے پاس وسائل تھے لیکن وہ بھی دشمنوں کے غلام ہی ثابت ہوئے. 
اس سیاق میں آپ جب ارطغرل دیکھیں گے تو پائیں گے کہ  ناامیدی کے اس ماحول میں ارطغرل ڈرامہ ایک امید افزا تاریخی کارنامہ ہے، متبادل پیش کرنے کی ایک بہترین مثال ہے اور کاونٹر اٹیک کا ایک بہترین نمونہ ہے. 

*ارطغرل سیریز کا اثر ترکی کے مسلمانوں پر:*


ترکی کی اسلامی پہچان ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، تین براعظموں پر پھیلی ہوئی خلافت عثمانیہ کے چھ سو سالہ دور کا مرکز ترکی رہا ہے. اس خلافت کے خاتمہ کے بعد مصطفی کمال نے ترکی سے اسلام اور اسلام سے متعلق ہر چیز کو کھرچ کھرچ کر نکالنے کی کوشش کی، اسلامی ثقافت اور اسلامی امتیاز کی ہر چیز پر وہ حملہ آور ہوا، ایسی ظالمانہ پالیسیاں بنائی کہ جس کی رو سے حجاب، اذان، اسلامی ادارے اور عربی رسم الخط کو غیر قانونی قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی گئی. اور اسی کے ساتھ ساتھ عوامی زندگی سے عثمانی خلافت کے اثرات اور یادیں مٹانے کی مکمل کوششیں ہوئیں. عثمانیوں کو یاد کرنا بھی گویا جرم بن گیا تھا. ایک بار نجم الدین اربکان نے اسکول میں بچوں سے عثمانی خلافت پر ایک ڈرامہ پیش کروایا، جس کی وجہ سے انہیں جیل بھیج دیا گیا. لیکن آج اسی ترکی میں مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت اور ترکی کے مسلمانوں کے مثالی آباء اجداد پر نہ صرف یہ کہ ایک مثبت پیغام دیتا ہوا ڈرامہ بنا بلکہ اس سیریز نے کامیابی، مقبولیت اور اثر پذیری کے ترکی میں سارے ریکارڈ توڑ دیے. ایک صحافی Foreign Policy Journal میں لکھتے ہیں کہ میں جب استنبول گیا تو میں نے دیکھا کہ عثمانیوں اور ان کی تاریخ کے تعلق سے لوگ مثبت رائے کا اظہار کررہے ہیں، 


ان میں یونیوسٹی کے طلبہ، ہوٹل اسٹاف، ٹیکسی ڈرائیورز، ریسٹورانٹ کے ویٹرز اور عام دوکاندار تھے. یہاں تک کہ اردوغان کے سخت مخالفین کو بھی مثبت رائے کا اظہار کرتے سنا. اب آپ خود فیصلہ کریں کہ ایک ایسے ملک میں مسلمانوں کی عظیم سلطنت کے بانیوں پر ایک کامیاب سیریز بنا کر عام کردینا اور ایک مثبت رائے عامہ کا تیار کردینا جس ملک میں عثمانیوں پر اسکول میں صرف ایک ڈرامہ پیش کرنے پر جیل ہوجاتی ہو، کیا اپنے آپ میں ایک کامیابی نہیں ہے؟ جس ملک میں اسلامی شناخت اور اسلامی طرز زندگی ایک جرم ہو وہاں اسلامی روایت و اقدار پر مبنی کرداروں پر ایک ڈرامہ بنا کر لوگوں کے ذہنوں کو بدل دینا خود ایک کارنامہ نہیں ہے؟ 

ارطغرل سیریز پر مغربی میڈیا کا رد عمل*


اس ڈرامہ کی بے پناہ کامیابی اور حیرت انگیز مثبت اثر پذیری سے مغربی میڈیا کو تو تاثر لینا ہی تھا، آخر وہ یہ بات کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ جس ذرائع ابلاغ کے استعمال سے آج تک ہم مسلمانوں کے خلاف نفرت اور جھوٹ پھیلاتے رہے اسی کا استعمال کرکے ہماری مکاریوں، عیاریوں، اور ظلم و زیادتیوں کو دنیا کے سامنے پیش کردیا گیا، جس کا اثر خود عیسائی عوام تک لے رہی ہے. آخر انہیں یہ بات کیسے برداشت ہوسکتی ہے کہ ہم نے ڈراموں اور فلموں کی کامیابی کا جو معیار بنایا ہے وہ یہ ہے کہ فحش گانے، فحش مناظر، فحش کردار ہی سے فلمیں اور ڈرامے لوگوں میں مقبول ہوسکتے ہیں، لیکن ارطغرل سیریز نے ان سب کے بنا نہ صرف میدان مار لیا بلکہ یہ رجحان بھی قائم کردیا کہ فحاشی کے مناظر کے بغیر بھی سیریل بنا کر کامیابی سمیٹی جا سکتی ہے. 

نیویارک ٹائمز میں 14/مئی /2017 کو شائع ایک مضمون میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ارطغرل کے ذریعہ ترکی میں ماضی کو زندہ کیا جا رہا ہے. اسی طرح انگریزی خبروں کی ویب سائٹ Fanack نے کہا کہ یہ سافٹ بم ہے جو لوگوں میں عثمانیوں کو زندہ کررہا ہے. 

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ماضی کو زندہ کرنے کا طعنہ دینے والی دنیا بھر کی یہ منافق میڈیا اس وقت بہت بغلیں بجاتی ہے جب مسلمانوں کے ماضی کی غلط ترجمانی کرتی ہوئی یا مسخ شدہ مسلم تاریخ پر کوئی فلم یا ڈرامہ بنتا ہے، جیسا کہ 2012 میں عثمانی خلیفہ سلیمان پر ایک فلم Ottoman era, Sex And City کے نام سے بنی تھی جس میں، عثمانی خلیفہ سلیمان کو شہوت پرست اور عورتوں کا رسیا انسان دکھایا گیا تھا، اور جب اردوغان نے اس کی پرزور مخالفت کی اور کہا سلیمان وہ نہیں ہے جو تم نے سیریل میں دکھایا ہے سلیمان تو وہ انسان تھا جس کی عمر کے تیس سال راہ خدا میں بسر ہوۓ"*  . یوروپ اور مغرب اپنے ماضی کو یاد نہ کرے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے،کیونکہ ان کا ماضی سیاہ ہے، وہاں ظلم ہے اور جہالت ہے. لیکن ہم کیوں اپنے ماضی سے کٹ جائیں، ہمارا ماضی تو تابناک ہے، عدل و انصاف کی بہترین مثالیں ہمارے ماضی میں موجود ہیں، علم و ہنر و فکر و فن سے ہمارا ماضی روشن ہے. لہذا اپنے ماضی سے کٹے وہ جس کا ماضی "عہد ظلمت" کا گواہ ہے. ہم مسلمان اپنا ماضی کیوں بھلائیں؟*

اس سائٹ کی دوسری مشہور تحریریں 

کلک کرکے ضرور پڑھیں 



ترکی میں بھی بعض لادین اور اسلام دشمن میڈیا ہاؤسز نے ارطغرل سیریز کو نیچا  دکھانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے. اسی طرح سعودی عرب میں بھی اس پر پابندی لگائی گئی، جی ہاں اسی سعودی عرب میں جہاں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی حیاسوز اور عریاں فلمیں سنیما پر نشر کی جاتی ہیں، لیکن عریانی و فحاشی سے پاک سیریل ارطغرل پر پابندی لگائی جاتی ہے. 

*ارطغرل سیریز کے مثبت نتائج*


اس ڈرامہ کا اثر عیسائیوں پر بھی پڑا ہے. ایک عیسائی نے میڈیم نامی بلاگ پر ارطغرل پر تبصرہ لکھا ہے جسے میں نے خود پڑھا ہے. وہ لکھتا ہے کہ ارطغرل دیکھنے کے دوران ہی مجھے ان عیسائی مجرموں سے نفرت ہونے لگی جو زبردستی مسلم علاقوں میں گھس جاتے تھے، اور وہاں فساد پھیلاتے تھے، اپنے مفاد کے حصول کے لیے مسلمانوں کے درمیان دشمنیاں پیدا کرتے تھے. 

اسی طرح ارطغرل میں اسلامی اقدار و روایات کی ایسی بہترین ترجمانی کی گئی ہے کہ ارطغرل دیکھنے کے بعد اسلام سے متاثر ہو کر ایک میکسیکن جوڑے نے اسلام قبول کرلیا. یہ خبر ترکی کے معتبر نیوز ویب سائٹ Yani Safak پر موجود ہے. ہندوستان کے بعض اردو اخباروں میں بھی یہ خبر شائع ہوئی تھی. 
اس کے مثبت اثرات پوری دنیا کے مسلمانوں پر بھی پڑے ہیں. ہندوستان اور پاکستان کے بہت سے مسلم نوجوانوں کے ایسے تبصرے کثرت سے پڑھنے کو ملے جن میں وہ کہہ رہے ہیں کہ "ہم اب تک بیکار ہی میں شاہ رخ اور سلمان کی فلمیں دیکھ رہے تھے، ہمارے پاس تو ہمارا اپنا ہیرو بھی ہے، جو ہم میں ایمانی جذبے کو ابھارتا ہے اور حق کی راہ میں ہمیشہ جدو جہد کرنے کا جذبہ دیتا ہے. 

ارطغرل سیریز میں عورتوں کو ہندوستانی اور پاکستانی ڈراموں کی طرح روتے دھوتے نہیں دکھایا گیا ہے، بلکہ ارطغرل سیریز کی عورتوں کو طاقتور، اور جدو جہد کے جذبے اور مصیبتوں کا سامنا کرنے کی ہمت سے بھرپور دکھایا گیا ہیں. بار بار صبر کی تلقین اور برے حالات میں عورتوں کے سر نہ پیٹنے کا جو منظر دکھایا گیا ہے، اس سے ہمارے معاشرے کی عورتیں خصوصا ہماری بہنیں ضرور سبق حاصل کریں گی. 
ارطغرل میں بار بار یہ بات کہی جاتی ہے کہ جدو جہد ہماری، اور فتح اللہ کی. اس سے لاشعوری طور پر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم کوشش اور محنت کے مکلف بنائے گئے ہیں، نتیجہ کی ذمہ داری ہماری نہیں بلکہ اللہ کی ہے. آخری دم تک کوشش کرنے اور امید نہ چھوڑنے کے پیغام کو بہت خوبصورتی سے اس سیریل کے ذریعہ پہنچایا گیا ہے.  

 حدیث میں مایوس نہ ہونے اور نتیجہ کی طرف سے یکسو ہو کر محنت پر توجہ دینے کی جو ترغیب ہے اسے ارطغرل سیریز کے ذریعہ کروڑوں ذہنوں میں اتار دیا گیا ہے، جس کی زخمی امت کو شدید ضرورت ہے. 
اسی طرح اس سیریل کا بہت مؤثر اور اقدام پر ابھارنے والا ایک جملہ ارطغرل کی زبان سے ادا ہوتا ہے، جملہ ہے کہ *"گیدڑوں کی بادشاہت صرف اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک شیر اپنے پاؤں پر واپس نہ آجائے".* اس جملہ میں سو فیصد سچائی ہے، حق نے جس جس میدان سے اپنے قدم پیچھے ہٹا لیے ہیں، ہر اس میدان میں باطل نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے. ذرائع ابلاغ کے میدان کو ہی دیکھ لیجیے، ہماری موجودگی، ہماری فعالیت یہاں بالکل نہ ہونے کی وجہ سے باطل نے جس طرح چاہا ویسا ہی بناکر ہمیں دنیا کے سامنے پیش کردیا. اور ہم مقابلہ تو کیا کرتے، اپنا دفاع تک نہ کر سکے. 

اس سیریل میں موت سے بے خوفی، دنیا سے بے رغبتی، شہادت کا جذبہ، بہادری و جرات مندی، حکمت و دانائی، منصوبہ بندی اختیار کرنے کی دعوت، دھوکہ بازی اور حسد و کینہ سے پرہیز، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، جذباتیت سے گریز اور خواتین اسلام کے اندر صبر و شکر کا جذبہ پیدا کرنے کی جہاں تعلیم دی گئی ہے، وہی اسلامی نقوش پر بچوں کی تربیت اور آخری دم تک ہمت نہ ہارنے کی صفت سے آراستہ ہونے کی تلقین بہت موثر انداز میں کی گئی ہے. اس سیریل میں آنے والے نسلوں کی پرورش اس طرز پر کرتے دکھایا گیا ہے کہ ان میں قوم کی فکر پیدا ہو اور وہ اپنی قوم اور انسانیت کے مخلص رہنما بنیں. یہ سیریل تعلیم دیتا ہے کہ زندگی کو با مقصد بنایا جائے، اس مقصد کے حصول کے لیے جی توڑ کوششیں کی جائیں، سخت سے سخت حالات میں قدم پیچھے نہ ہٹایا جائے اور مقصد کے حصول کے لیے زندگی گزار دی جائے. 

ان سب کے باجود جس طرح دنیا میں کوئی بھی چیز پرفیکٹ نہیں ہوتی اسی طرح یہ ڈرامہ بھی پرفیکٹ نہیں ہوسکتا. غلطیاں تو بہرحال ہوں گی. لیکن اس کی برائیوں پر اس سیریز کی اچھائیاں پوری طرح غالب ہیں. ارطغرل دیکھیے، اچھائیوں سے سیکھیے، اور اسے منتقل کیجیے. 
اسامہ طیب

1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی