🌸 بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ۔ 🌸
فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (سورہ یوسف :64)
    
  (♦️ *وہ مسافر اپنے رب پر 
بھروسہ کرتا ہوا قدم درقدم اپنے پروردگار سے اپنی زندگی وعافیت کی بھیک مانگتا ہوا اس پرخطر راستے پر چل پڑا تھا جہاں سےتمام مسافر بچ کر واپس لوٹ آچکے تھے۔*               ✨  *قرآن کی کئی آیتیں اسے قدم بقدم دلاسہ دےرہی تھیں۔اسے اپنے رب پر بھروسہ تھا تب ہی تو وہ بلاخوف وخطر ہر وسوسہ سے دور اس پرخطر راستے کو نہایت ہی* **اطمینان کے 
ساتھ ناپ رہا تھا* 

              🌧️انتہائی تیز موسلادھار بارش کا موسم،گہری اور خوفناک رات کی تاریکی میں ڈوبا ہوا منظر،سناٹوں اور وحشتوں کا ہر طرف ڈیرا ہی ڈیرا،لمبے لمبے درختوں سے الجھتا ہوا تیز و تند طوفانی ہواؤں کا جھونکا جس سے وجود میں آنے والی آواز ،اس موسم کی خوفناکی کو بڑھانے میں مزیدحصہ لے رہی تھی۔
     ایسے پر خطر اور ڈراؤنے موسم میں جس میں آسمان شدت سے اپنے آنسوں بہا رہا تھا۔اور زمین ان آنسوؤں کو جذب کرتے کرتے تھک چکی تھی۔اسی زمین کے سینے پر مسافروں سے بھر ہوئی ایک تنہا بس اس بے رحم موسم کے ظلم وستم کو سہتی ہوئی   خوفناک حالات کی خوفناکی سے خود کو بچاتی ہوئی کبھی صحراؤں و بیابانوں کی پرخطر وادیوں تو کبھی گاؤں و شہروں کی کچی پکی سڑکوں کو تیزی سے عبور کرتے ہوئےاپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں تھی۔ جس میں بیٹھے ہوئے ہر مسافر کی صرف یہی ایک خواہش تھی کہ وہ صحیح سلامت بخیر و عافیت اپنی منزل پر پہنچ جائے۔
      طویل و لمبی مسافت اور ناسازگار حالات کی تھکان نے کچھ مسافروں کو نیند کی آغوش میں سلا دیا تھا جو بےرحم موسم کی بےرحمی سے بے خبر محو خواب تھے۔کچھ پر نیند کا نشہ تھا شاید وہ بھی نیند کی آغوش میں جانا چارہے تھے۔اور کچھ کو منزل کی جستجو نے نیند سے کوسوں دور کر رکھا تھا۔
     بادلوں کی انتہائی تیز گرجدار گڑگڑاہٹ،بجلی کی تیز و خوفناک کڑکڑاہٹ،اور آسمان سے چلاتے و شور کرتے ہوئے زمین پر تیزی سےپھیلتے ہوئے بارش کے ننھے ننھے قطرے جو مسافروں کو بار بارنیند کی آغوش سےباہر نکال رہےتھے۔بجلی کی کڑک سے نمودار ہونے والی آنکھوں کو چوندھیاتی وہ روشنی جو وقفے وقفے سے موسم کی بدصورتی کوان کی  نگاہوں کے سامنے پیش کر رہی تھی۔
    تقریباً ہر مسافر ،سفر کی  تھکان سے چور اور اس وہ تیز و طرار اور دل دہلانے والی بجلی جو وقفہ بوقفہ بادلوں کی اوٹ سے اچانک نمودار ہوکر اپنی خوفناک جھلک دکھا رہی تھی ،سے ڈرا و سہما ہوا تھا۔
     ان مسافروں کی منزل کی راہوں میں رکاوٹ بنےاس وحشت ناک موسم سے زیادہ شاید یہ دل دہلانے والی بجلی بھی تھی جو ان کی راہوں میں ڈر وخوف اور  مایوسیوں کو بچھانے کا کردار نبھا رہی تھی۔
       بس کا ڈرائیور جس سمت بھی بس کا رخ موڑتا بجلی اسی سمت اپنی خوفناک چنگھاڑ کے ساتھ تیز روشنی پھینکتی ہوئی ان کی راہوں میں رکاوٹ بنے کھڑی ہوجاتی ۔جس سے ہر کسی کو محسوس ہوتا کہ اب وہ اس کی دبوچ میں آ ہی چکا ہے۔
      البتہ‌۔۔۔ مسافر اپنی راہ سے بھٹک چکے تھے۔کچھ دیر پہلے ان مسافروں کی جو سب سے پہلی خواہش "منزل "تھی اب وہی خواہش اس خوفناک بجلی سے بچ نکلنے کی آخری خواہش میں تبدیل ہوچکی تھی۔
آخر کیسے بچیں اس بجلی سے؟؟؟؟؟
ہر مسافر کا ذہن اس سے بچ نکلنے کی تدبیر تلاش کررہا تھا۔



تب ہی اچانک۔۔۔۔۔۔۔!
ایک مسافر نے کہا:"شاید بجلی ہم سے کسی ایک ہی کی طلبگار ہے۔"
آخر کس کی۔۔؟۔   کون ہوگا وہ۔۔؟
اگر ہوگا بھی تو ہمیں کیسے معلوم کہ کون ہے؟؟؟ آخر اب کیِا کیا جائے؟؟
بیک وقت تمام مسافروں کے ذہنوں  نے کئی سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔اس حال میں کہ بجلی چاروں طرف سے شور کرتی انہیں دبوچ لینے کے  لیے مچل رہی تھی۔
خیر۔۔۔ بڑی تگ ودو کے بعد آخر فیصلہ ہو ہی گیا۔کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر مسافر کو بس سے اترنا ہی ہوگا۔اور دور‌ وہ لہلہاتے ،سخت طوفان سے الجھتا ہوا نہایت ہی بہادری سے کھڑے ہوئے اس درخت کی ٹہنی کو چھو کر آنا ہوگا۔اسطرح  بجلی جس کی بھی بھوکی ہوگی وہ اسے اپنا لقمہ بنا کر باقی کو اپنے قہر  سے آزاد کردیگی۔
ٹھیک ہے۔۔ٹھیک ہے۔۔۔
جلدی کرو ۔۔۔ جلدی کرو۔۔۔۔۔۔۔۔
بجلی کی کڑک میں اضافہ ہوتا ہی جارہا تھا ۔جس سے زمین کانپ رہی تھی۔اور ہر مخلوق اس کی  خوفناک کڑک سے ڈری وسہمی ہوئی اپنی اپنی پناگاہوں میں دبکی ہوئی تھی۔
      پر۔۔۔۔۔۔۔پر اب ایک اورسوال نے سبھی کے ذہنوں پر دستک دی‌۔کہ۔۔۔۔۔آخر سب سے پہلے کون جاۓ؟ سب سے پہلے کون اس بہادری کی ابتداء کرۓ؟ سب سے پہلے کون اپنی زندگی کو موت کے حوالے کرنے کی ہمت کرۓ؟ آخر کون سب سے پہلے اس عظیم قربانی کے لیئے تیار ہوگا
ان سوالات نے سبھی کو غوروفکر کے گہرے سمندر میں لا ڈبویا تھا۔
ہر طرف سناٹا۔۔۔۔ہر لبوں پر خاموشی
ایک اور امتحان۔۔۔۔ایک اور آزمائش
آخر‌۔۔۔کب تک ،کب تک ان خاموشیوں کا غلبہ برقرار رہتا۔آخر کب تک یہ سناٹا زندہ رہتا۔
خیر۔۔۔۔کچھ مسافروں نے یہ کہہ کر اس عجیب سی خاموشیوں کی کڑیوں کو توڑا کہ۔۔۔۔"ابتداء ڈرائیور سے ہی ہونی چاہیئے۔"
جن کی ہاں میں ہاں تقریباً سبھی مسافر ملا چکے تھے۔اور  صرف  جسکی ہاں نہیں ملی تھی تو وہ خود ڈرائیور ہی تھا۔
خیر کیا تھا۔ڈرائیور کو راضی ہونا ہی پڑا۔کیسے نہ راضی ہونا پڑتا۔آخر جو وہ تمام مسافروں کا رہنماء ورہبر ٹھہرا تھا۔
البتہ ڈرائیور کانپتے دل کے ساتھ،جان ہتھیلیوں پر لیے بس سے اتر چکا تھا۔بارش کی تیز بوندیں تقریباً اسے پانی سے تر کر چکی تھیں۔بجلی کی تیز دل چیرتی گڑگڑاہٹ مسلسل جاری تھی۔
آدھا راستہ۔۔۔۔۔پھر مکمل راستہ۔۔۔اور اب وہ دور تنہا کھڑا درخت جو خاموشی سے اس منظر کی انتہا کا منتظر تھا۔ڈرائیور کی کانپتی ہوئی انگلیاں اسے چھو رہی تھی۔
اور  اب اسکے قدم واپسی کے راستے طے کررہے تھے۔بس کے ہر مسافر جو اسکی موت کا تماشہ دیکھنے کے لئےمنتظر تھے۔ان کے سامنے ہی وہ اپنی زندگی کو بچا لایا تھا۔اور ہر مسافر کی نگاہوں میں انوکھا نظر آنے لگا تھا۔۔  اور اب۔۔۔۔۔تمام مسافروں کی باری تھی۔ایک کے بعد ایک وہ ڈر وخوف سے لپٹے ،جان ہتھیلیوں پر لیے اس درخت کو چھو کر واپس لوٹ رہے تھے۔لوٹ آنے والا ہر مسافر ان مسافر کی نظر میں پاکیزہ اور عظیم تر ہوجاتا جو اپنی باری کے منتظر تھے۔
اب صرف تین مسافر ہی رہ گئے تھے۔جو محسوس کررہے تھے کہ بجلی ہماری ہی طلبگار ہے۔ 
تین مسافروں سےاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب صرف ایک ہی مسافر بچا ہوا تھا۔تمام مسافروں کی نظروں سے گرا ہوا ۔ ہر کسی کو گناہوں کیچڑ میں لت پت نظر آتا ہوا۔اور اپنے دل پر تمام کی نفرتوں کےتیر کے چبھتے ہوئے کرب کو محسوس کرتا ہوا دوسرے مسافروں سے کڑکتی ہوئی بجلی سے اپنی زندگی کو بچانے کی منت وسماجت کررہا تھا۔کیونکہ ہر مسافر بجلی سے بچ نکلا تھا۔
پر۔۔۔اسے اس راستے پر چلنا ہی تھا جہاں موت چھپی ہوئی نظر آرہی تھی۔
 *خیر وہ آخری مسافر اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے قدموں کو اس راہ پر ڈال چکا تھا جہاں موت شاید اس کی منتظر تھی۔اسکا ہر اٹھنے والا قدم اپنے رب سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔قرآن کی کئی آیتیں اسے دلاسہ دے رہی تھی۔اسے اپنے رب پر اس بات کا پختہ یقین تھا کہ۔۔۔۔ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ " .تب ہی تو اس پرخطر و خوفناک راستے کے فاصلوں کو بغیر کسی خوف و خطر انتہائی اطمینان وسکون  سے ناپ رہا تھا۔* وہ درخت  جو چند قدم کی دوری پر اسکی آمد کا منتظر تھا۔اب اسکی انگلیاں اسے چھونے ہی جارہی تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دل دہلانےوالی خوفناک آواز نے اسکے قدموں کو جکڑ دیا ۔
یہ کیسی آواز تھی ؟یہ کیسا دھماکہ تھا؟کانپتے ہوئے اسکے پورے وجود نے  اس سےسوال کیا۔
اس سوال کے جواب کی تلاش میں اسکی نگاہوں نے پلٹ کر دیکھا تو کیا دیکھا؟؟؟؟
        جس بجلی سے لوگ اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ سمجھ چکے تھے۔ہر خوف ان کے دل سے نکل چکا تھا۔پر افسوس۔۔ اب وہ اس کا لقمہ بن چکے تھے۔بجلی ان پر ایک آتش فشاں بن کر گر چکی تھی۔جلتی ہوئی بس سےاٹھنے والی تیز روشن آگ کے شعلے کسی کی موت و زندگی کی کہانی سنا رہے تھے۔وہ نیک مسافر اس دردناک منظر کو دیکھ کرتمام ماجرہ اور اپنے رب کی مصلحت کو سمجھ چکا تھا کہ۔۔ اس کا رب اسے بچانے کی اور ان گنہگاروں کو انکے انجام تک پہنچانے کی تگ ودو میں تھا جو اب اپنے انجام تک پہنچ چکے تھے ۔۔
       ☄️  تاریک رات کی کوکھ سے اب  دن کی روشن کرنیں نمودار ہورہی تھی۔آگ بجھ چکی تھی۔ موسم معتدل ہوچکا تھا ۔ آسمان سے بہنے والا آنسوں تو تھم چکا تھا پر۔۔۔اس مسافر کی آنکھیں آنسوں بہا رہی تھی۔اپنے پروردگار کی محبت میں کیونکہ اس نے وعدہ سچ کر دکھایا تھا ۔
بے شک۔۔! فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
(اللہ رب العالمین بہترین حفاظت کرنے والا ہے، اور وہ رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے )


         *ہماری آج کی جیتی جاگتی زندگی کی کہانی* بھی اس کہانی سے کچھ الگ نہیں ہے۔ بہت سارے  ہمارے ربّ العالمین کےعذاب، کبھی جان لیوا طوفان ،تو کبھی ٹڈیوں کی فوج ،تو کبھی کرونا وائرس، کی شکل میں ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔اور ہم بے خبر اپنے گناہوں میں مگن اپنے رب کی راہ سے بہت دور نکل آئے ہیں۔ ان راستوں کو ہمارے گناہوں نے تاریک کر دیا ہے ۔پر ہمارا مہربان رب کبھی طوفان، تو کبھی ٹڈیوں ،تو کبھی کرونا وائرس، جیسے لشکر کو بھیج کر تمہارے اس تاریک راستے پر مسلسل روشنی جلا رہا ہے تاکہ تم اس روشنی کے سہارے اپنے رب کی طرف واپس لوٹ جاؤ۔اور اسکے نیک بندے بن کر صرف اسی کے  ہوجاؤ تاکہ تم بھی اس کے قہر سے بچ نکلو۔
      اپنے دل ودماغ سے پوچھو کہ کیا واقعی تم اللہ کے نیک بندے ہے؟
☝🏻خبردار* ۔۔! اس سلسلے میں اپنے آپ کو ہرگز جھوٹی تسلی نہ دینا۔اگر آپ کے دل نے گواہی دی کہ واقعی آپ اس کے سچے بندے ہیں تو فوراً اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوجانا۔اور اس سے ہمیشہ اپنے ایمان کی عافیت کی دعا کرتے رہنا۔
اور اگر۔۔۔۔۔ تمہارے دل نے یہ گواہی دے دی کہ ۔۔۔تم۔۔۔اللہ کی محبت کے سلسلے میں۔۔غدار۔۔ررر۔۔ہو
تمہیں اپنے پروردگار سے۔۔۔سچی محبت۔۔ نہیں ہے ۔۔تو پھر۔۔۔
ابھی ہی اٹھ کھڑے ہوجاؤ۔۔۔کمر کس لو۔۔
اپنے روٹھےہوۓ رب کو منانے کے  لیئے جو بہت جلد مان جاتا ہے۔اس سے پہلے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرونا وائرس یا کوئی اور وائرس ہمیں ہمارے ربّ العالمین کے پاس لے جاۓ اس حال میں کہ ہمارے دل اپنے پروردگار کی محبت سے خالی ہے۔ تب کیسا بھیانک انجام ہوگا۔۔؟وہ آپ خود ہی سوچ لیجئیے۔کیونکہ ہم میں اس انجام کو بیان کرنے کی ہمت نہیں۔

 *اللہ سے دعا ہے کہ* 🤲🏻اے ہمارے  پروردگار عالم!تو اس پر فتن اور بےحیائی کے سسکتے ہوئے دور میں ہمارے دلوں کو اپنی محبتوں  سے لبریز کرکے ہمارے ایمان کی حفاظت فرما تاکہ کوئی بھی گناہ ہمارے ایمان کے لیئے آزمائش نہ بن سکے۔
        (آمین یارب العالمین🤲🏻)

                   

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی