سوال(4- 1705): عقیقہ کا شرعی حکم کیا ہے؟ 

جواب: عقیقہ مسنون اور مستحب ہے اور استطاعت کی صورت میں اس کی بڑی تاکید ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

 ”مَعَ الْغُلاَمِ عَقِيقَةٌ، فَأَرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الأَذَى“ (رواه البخاري(1) 

 بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، پس اس کی جانب سے خون بہاؤ (یعنی عقیقہ کا جانور ذبح کرو) اوراس سے (سرکابال منڈاکر اور اچھی طرح غسل دے کر) میل کچیل دور کرو۔ 

 اور ایک حدیث میں حضرت سمرہ   سے روایت ہے: 

 ”كُلُّ غُلاَمٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ، وَيُسَمَّى فِيهِ، وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ“ (رواه أحمد(2) وأهل السنن(3)، وصححه الترمذي والحاکم وعبدالحق) 

 ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے رہن رکھا ہوا ہے، جسے ساتویں دن اس کی جانب سے ذبح کیا جائے گا اور اسی دن اس کانام رکھا جائے گا، اور اس کا سر مونڈاجائے گا۔ 

 اور عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ  کی سند سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا: میں عقوق کو پسند نہیں کرتا ہوں، گویا کہ آپ نے اس نام کو پسند نہیں فرمایا، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ سے اُس کے بارے میں پوچھتے ہیں جو ہم میں سے کسی کے گھر بچے کی ولادت ہو (تو ذبح کیا جاتا ہے)؟ آپ نے فرمایا: تم میں سے جو اپنے بچہ کی جانب سے ذبح کرنا چاہے تو کرے، لڑکے کی جانب سے دو ہم مثل بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری۔ (رواه أحمد(4) وأبوداود(5) والنسائي(6)) 

 یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جو حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بچے کو اس کے عقیقہ کے عوض رہن رکھے جانے کا تذکرہ ہے وہ عقیقہ کے وجوب پر دلالت نہیں کرتا، بلکہ اس کی تاکید مقصود ہے، اور عقیقہ در اصل مستحب ہے، کیونکہ اگر وہ واجب ہوتا توکسی کے ارادہ اور چاہت پر موقوف نہ ہوتا، اور آپ ”مَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَنْسُكَ“ نہ فرماتے، کیونکہ واجب کسی کے چاہنے اور پسند کرنے پر موقوف نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب. 


شریعت میں عقیقہ کا حکم

سوال(5- 1706): شریعت میں عقیقہ کا کیا حکم ہے؟ اور اس کی مدت کتنی ہے؟ 

جواب: عقیقہ کرنا سنت ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  

 ”مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُودٌ فَأَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْهُ فَلْيَفْعَلْ“(7) 

 یعنی جس کے گھر بچہ پیدا ہو وہ اگر اس کا عقیقہ کرنا چاہے تو چاہئے کہ کرے۔ 

 البتہ اس کی بہت تاکید ہے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

 ”كُلُّ غُلاَمٍ رَهِينٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ“(8) 

 ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض رہن رکھا ہوا ہے، جو اس کی جانب سے ساتویں دن ذبح کیا جائے گا۔ 

  اس واسطے استطاعت ہو تواس کو چھوڑنا نہیں چاہئے۔ 

 عقیقہ کا اصل وقت بچہ کی ولادت کے ساتویں دن ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں صراحت ہے، اور بعض روایتوں میں مجبوری کی حالت میں چودہویں اور اکیسویں دن عقیقہ کا تذکرہ ہے، مگر وہ ضعیف ہے (9)، اس واسطے بلا وجہ تاخیر کرنا ٹھیک نہیں۔ 

________

(1) صحيح البخاري: 9 /590 [5471]کتاب العقيقة، باب إماطة الأذی عن الصبي في العقيقة. 

(2) مسند أحمد:5/ 7. 

(3) سنن أبي داود: 3/ 106 [2838] کتاب الضحايا،باب في العقيقة، سنن الترمذي:4/ 101 [1522] کتاب الأضاحي، باب من العقيقة، سنن النسائي:7/ 166 [4220] کتاب العقيقة، باب متی يعق،سنن ابن ماجه:2/ 1056 [3156]کتاب الذبائح،باب العقيقة، وقال الألباني:صحيح. 

(4) مسند أحمد: 2/ 182 [6713]. 

(5) سنن أبي داود: 3/ 107 [2842] کتاب الضحايا، باب في العقيقة. 

(6) سنن النسائي:7/ 162 [4212] کتاب العقيقة. 

(7) مسند أحمد: 2/ 194، وقال الألباني: صحيح. 

(8) سنن النسائي: 7/ 166 [ 4220] کتاب العقيقة، باب متی يعق. 

(9) انظر إرواء الغليل: 4/ 294.


نعمة المنان مجموع فتاوى فضيلة الدكتور فضل الرحمن: جلد پنجم، صفحہ: 411- 413۔


  ••• ═༻✿༺═ •••

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی