ماہ محرم کی اہمیت و فضیلت اور عاشورا کا روزہ,ایک دن یا دو دن؟
 

نئے اسلامی سال کی شروعات ماه محرم الحرام سے ہوتی ہے ، محرم الحرام کا مہینہ نہایت ہی فضائل و برکات کا حامل مہینہ ہے ، یہ ماہ اپنی خصوصیات اور امتیازات کی وجہ سے دیگر مہینوں سے علاحدہ شناخت رکھتا ہے ، اس ماہ حرام کی حرمت او تعظیم زمانہ جاہلیت سے چلی آرہی تھی ۔ لوگ اس ماہ مقدس میں اپنی لڑائیاں موقوف کر دیا کرتے تھے ، اور جنگ و جدال سے باز آتے تھے ، گویا یہ ماہ مقدس نہ صرف اسلام میں برکت و فضائل کا حامل قرار پایا ؛ بلکہ اس کا تقدس و احترام اور اس کی قدر و عظمت زمانہ جاہلیت سے بھی چلی آرہی تھی ، الله عزوجل نے قرآن کریم میں اس ماہ کی عظمت وحرمت کا اعلان کیا ہے : إن عدۃ الشهور عند الله اثنا عشر شهرا في كتاب الله يوم خلق السموات والأرض منها أربعۃ حرم ذلك الدین القيم فلا تظلموا فيهن أنفسکم سورة التوبة : بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جس دن سے اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے ان میں سے چار عزت والے ہیں ، ذوالقعدة ، ذوالحجہ, محرم اور رجب ہیں جس کا تذکرہ حدیث میں آیا ہے ۔


 اسلام کی آمد کے بعد بھی اس ماہ کی حرمت و عظمت کو اس کی سابقہ حالت میں برقرار رکھا گیا کہ یہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کے باقیات میں سے تھے جس کو لوگ اپناتے آرہے تھے ، چنانچہ قرآن وحدیث میں اس ماہ کو شھر الحرام ( یعنی احترام و اکرام کا مہینہ اور شہر اللہ یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے : سب سے زیادہ فضیلت والے روزے رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے مہینے محرم الحرم کے روزے ہیں “ ( مسلم : باب فضل صوم الحرم ، حدیث : ۲۸۱۳ ) امام نووی فرماتے ہیں کہ : اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ محرم کو الله عزوجل کا مہینہ قرار دیا ہے جو اس کی عظمت اور تقدس کو بتلانے کے لئے کافی ہے ، چونکہ الله عز وجل اپنی نسبت صرف اپنی خصوصی مخلوقات کے ساتھ ہی فرماتے 

ہیں ( شرح النووی علی مسلم : ۵۵ ٫ ۸ ) ۔


رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد با برکت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس ماہ کی حرمت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی وجہ سے نہیں ہے  اور وہ لوگ 

غلط فہمی کا شکار ہیں جو اس مہینے کی حرمت کی کڑیاں واقعہ کربلا اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ سے ملاتے ہیں ، اس لیے کہ مام محرم کی حرمت تو اس دن سے قائم ہے جس دن سے ہی کائنات بنی ہے ، جیسا کہ سورہ توبہ کی گذشت آیت : يوم خلق السموات والأرض سے واضح ہے ۔ 


سانحہ کربلاء اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے ۵۰ سال کے بعد پیش آیا ، اور شریعت مطہرہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل ہو چکی تھی ، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : اليوم أكملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دینا ( المائدہ : ۳ ) 


معلوم ہوا کہ یہ رجحان جہالت ولاعلمی پر مبنی ہے کہ ماہ محرم کا ادب و احترام شہادت حسین رضی الله عنہ کا مرہون منت سمجھا جائے, بلکہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ سے پہلے اس ماہ کی یکم تاریخ کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آ چکا تھا مگر اس وقت سے آج تک کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ شہادت اس انداز سے پیش نہیں کیا گیا ۔ 


حالانکہ اگر کسی بڑے آدمی کی موت یا شہادت کسی مہینے کے ادب و احترام کی علامت ہوتی تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایسے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے علمی ، دینی ، روحانی اور خلیفہ ثانی ہونے کے حوالے سے اس بات کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ مستحق ہوتے کہ ان کی شہادت پر وہ سب کچھ کیا جاتا جوحضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت پر کیا جاتا ہے ، مزید برآں حضرت عثمان رضی الله عنہ حضرت حمزہ رضی الله عنہ حضرت علی رضی الله عنہ اور دیگر اکابر جلیل القدر صحابہ کرام کی شہادتیں بدرجہ اولی اس کا استحقاق رکھتی ہیں مگر اہل سنت ان تمام شہادتوں پر نوحہ وماتم اور مجالس عزا وغیرہ کا اہتمام اس لئے نہیں کرتے کہ اسلام ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا اور جو ایسا کرتا ہے اس کا دین و ایمان خطرے میں ہے اور اسلام کا نوحہ و ماتم سے کوئی تعلق نہیں


عاشوراء کا روزہ 


اس ماہ مبارک میں مطلق کسی بھی دن روزہ رکھنا رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ شمار ہوتا ہے ، نیز نو اور دس محرم یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھنا اور بھی زیادہ فضیلت کی چیز ہے ۔ چنانچہ مسلم کی حدیث میں وارد ہے : افضل الصیام بعد رمضان شهر الله المحرم ، وافضل الصلاة بعد الفريضة صلوة الليل " ( صحیح مسلم کتاب الصوم ، باب فضل صوم المحرم ، رقم الحدیث : ۲۰۲ ) ترجمہ : رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل اللہ کے نزدیک محرم کے روزے ہیں ، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز ( تہجد ) ہے ۔ 


صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریشی بھی زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ۔ عن عائشة رضي الله عنها قالت : كانت قريش تصوم عاشوراء في الجاهلية ، وكان رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم يصومه ، فلما هاجر إلى المدينة صامه وأمر بصيامه ، فلما فرض شهر رمضان ، قال : من شاء صامه ، ومن شاء تر که " ( صحیح مسلم ، کتاب الصيام ، باب صوم عاشوراء رقم الحديث : ۰۲۱۲۶۵-۲۱ دار الکتب العلمية ) ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے اور جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بھی روزہ رکھتے تھے ، جب آپ علیہ الصلاة والسلام نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو وہاں بھی عاشوراء کا روزہ رکھا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ ہم کوبھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ، پھر جب ماه رمضان میں روزہ رکھنے کی فرضیت کا حکم آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اختیار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : " جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے ، جو چاہے نہ رکھے ۔۔ 


اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہجرت سے قبل بھی حضور صلی الله علیہ وسلم کی اپنی عادت شریفہ روزہ رکھنے کی تھی اور ہجرت کے بعد دوسروں کو بھی تاکید فرمائی تھی ۔ 

سیدنا موسی علیہ السلام نے اس روز بطور شکرانے کے روزہ رکھا تھا کہ جب اللہ تعالی نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تو آپ علیہ السلام نے بطورشکرانہ روزہ رکھا ، اور ان کے بعد بھی یہود یہ روزہ رکھتے رہے ، جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہود کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے پایا تو دریافت فرمایا : کونسا روزہ ہے جو تم رکھتے ہو ؟ کہا : یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو عزت بخشی اور فرعون اور اس کی قوم کو ذلیل کیا ، اس شکرانے پر سیدنا موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا تو ہم بھی رکھتے ہیں ۔ اس پر رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا : نحن احق بموسی منکم " ( ہم تم سے زیادہ سیدنا موسی علیہ الصلاة والسلام کے حقدار ہیں ) ۔ یا فرمایا : نحن أولى بموسی منکم ( ہم سیدنا موسی علیہ السلام کے تم سے زیادہ قریب ہیں ) ۔ ( مسلم : باب صوم يوم عاشوراء ، حدیث : ۱۲ ۲۷ )


 لہذا آپ صلی الله علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور امت کو بھی اس روزے کاحکم دیا ۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں : حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه ، قالوا : يا رسول الله ! إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى فقال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم : فإذا كان العام المقبل إن شاء الله منا اليوم التاسع ، قال : فلم يأت العام المقبل ، حتى توفي رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم " ( صحیح مسلم ، کتاب الصيام باب : ای یوم یصمام في عاشوراء برقم الحدیث : ۱۳  امام دار الکتب العلمية ) ترجمہ : جب حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن خود روزہ رکھا ، اور حضرات صحابہ کو روزہ رکھنے کاحکم فرمایا تو اس پر حضرات صحابہ کرام رضوان الل علیہم اجمعین نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! اس دن کی تو یہود ونصاری بھی تعظیم کرتے ہیں ؟ ( غالبا یہ عرض کرنا مقصود ہوگا کہ روزہ رکھ کر ہم نے بھی اس دن کی تعظیم کی, گویا ہم ایک عمل میں ان کی مشابہت اختیار کرنے گئے تو اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : اگر اللہ نے چاہا تو اگلے سال ہم نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھیں گے ۔ 


حضرت ابن عباس رضی الله تعالی فرماتے ہیں لیکن اگلے سال عاشورا کا دن آنے سے پہلے حضور اقدس صلی الله علیہ سلم کا وصال ہو گیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی نوبت نہیں ملی لیکن چوں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرما دی تھی ، اس لیے صحابہ کرام رضی الله تعالى عنہم اجمعین نے عاشوراء کے روزے میں اس بات کا اہتمام کیا اور 9 مرحوم يا 11 محرم کا ایک روزہ رکھا اور اس کو مستحب قرار دیا اور تنہا عاشوراء کے روزہ رکھنے کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں مکروہ تنزہی اور خلاف اولی قرار دیا ، یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشوراء کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ اس کو عاشوراء کے دن روزہ کا ثواب ملے گا لیکن چوں کہ آپ کی خواہش دو روزے رکھنے کی تھی ، اس لیے خواہش کی تکمیل میں بہتر یہ ہے کہ ایک روزہ ملا کر دو روزے رکھے جائیں ۔ 


عبادت میں بھی مشابہت نہ کریں


 رسول اللہ صلی اللہ کے علیہ و سلم کے اس ارشاد میں ہمیں ایک سبق اور ملتا ہے ، وہ یہ کہ غیرمسلموں کے ساتھ ادنی مشابہت بھی حضور علیہ الصلوۃ نے پسند نہیں فرمائی ، حالاں کہ وہ مشابہت کسی برے اور ناجائز کام میں نہیں تھی ، بلکہ ایک عبادت میں مشابہت تھی کہ اس دن جو عبادت وہ کر رہے ہیں ، ہم بھی اس دن وہی عبادت کر رہے ہیں لیکن آپ نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا ، کیوں ؟ اس لیے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو جو دین عطا فرمایا ہے ، وہ سارے ادیان سے ممتاز ہے اور ان پر فوقیت رکھتا ہے لہذا ایک مسلمان کا ظاہر و باطن بھی غیر مسلم سے ممتاز ہونا چاہیے ، اس کی طرز زندگی ، اس کی چال ڈھال ، اس کی وضع قطع ، اس کا سراپا ، اس کے اعمال ، اس کے اخلاق ، اس کی عبادتیں و غیرہ ہر چیز غیر مسلموں سے ممتاز ہونی چاہیے ۔ چنانچہ احادیث میں یہ احکام جابجا ملیں گے جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ غیر مسلموں سے الگ طریقہ اختیار کرو ۔


 مشابہت اختیار کرنے والا انہی میں سے ہے


 جب عبادت کے اندر بندگی اور نیکی کے کام میں بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے مشابہت پسند نہیں فرمائی تو دوسرے کاموں میں اگر مسلمان ان کی مشابہت اختیار کریں تو بہت بری بات ہوگی ، اگر یہ مشابہت جان بوجھ کر اس مقصد سے اختیار کی جائے تاکہ میں ان جیسا نظر آوں گا تو یہ گناہ کبیرہ ہے ۔ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من تشبہ بقوم فھو منھم ( ابوداؤد ) جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے ، وہ اسی قوم کے اندر داخل ہے ۔ مثلا اگر کوئی شخص انگریزوں کا طریقہ اس لیے اختیار کرے تاکہ میں دیکھنے میں انگریز نظر آئوں تو گناہ کبیرہ ہے لیکن اگر دل میں یہ نیت نہیں ہے کہ میں ان میں کا نظر آؤں بلکہ ویسے ہی مشابہت اختیار کر لی تو یہ مکروہ ضرور ہے ۔ 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی