کرونا وائرس اور قربانی

 *🥀سوال وجواب🥀*


🌻مسئلہ نمبر 1207🌻


(کتاب الاضحیہ باب الاداء)


*کرونا وائرس اور قربانی**


سوال: جیسا کہ معلوم ہے اس وقت کرونا وائرس کی وبا پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے بہت سے شہروں اور صوبوں میں مکمل لوک ڈاؤن ہے اور یہ لوک ڈاؤن بقرہ عید تک جاسکتا ہے تو کیا ایسے شہروں میں قربانی چھوڑی جاسکتی ہے، اور اس کی جگہ رقم کو صدقہ کیا جاسکتا ہے، اسی طرح جن شہروں اور صوبوں میں لوک ڈاؤن نہیں ہے لیکن وہ لوگ اپنی تنگ دستی اور معاشی تنگی کی وجہ سے پریشان نہیں تو کیا انہیں قربانی کی رقم بطورِ صدقہ دی جاسکتی ہے۔ (عبداللہ بہرائچ یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب بعون اللہ الوہاب


سوالنامہ میں کرونا وائرس کے پیشِ نظر جو دو سوالات آپ نے کئے ہیں وہ اس وقت بڑے اہم ہیں اور اس سلسلے میں بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں، اس مسئلہ کی اہمیت اور لوگوں کی غلط فہمی کے پیش نظر اس مسئلہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی جارہی ہے۔ 


قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم یادگار اور شریعتِ اسلامیہ کی ایک اہم مالی عبادت ہے، یہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہء کرام نے پوری زندگی اس سنت ابراہیمی اور طریقۂ نبوی کو قائم رکھا(١) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں، ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ قربانی کے دن کسی آدمی کا اس سے بڑا نیکی کا کام نہیں ہوسکتا کہ وہ قربانی کرے، اور قیامت کے دن جانور اپنی سینگ اور کھر کے ساتھ آئے گا، نیز قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی دربار خداوندی میں مقبول ہوجاتا ہے۔(٢) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار قرار دیا اور فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے(٣)۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی حیثیت ہوتے ہوئے نہ کرنے والوں کو وعید سنائی اور فرمایا کہ وہ ہمارے عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئیں(٤)


ان روایات سے معلوم ہوا کہ قربانی کے ایام میں قربانی کرنا ہی افضل ترین عمل ہے اور اس کو چھوڑنے والا گنہگار ہے(٥)، اسی لیے علماءاحناف کے نزدیک قربانی واجب اور دیگر ائمہ مجتہدین کے یہاں سنت مؤکدہ ہے(٦)، بعض ائمہ کے یہاں واجب کی اصطلاح نہیں ہے اس لیے سنت مؤکدہ واجب ہی کے درجے میں ہوتی ہے، اس لئے تمام ائمہ کے نزدیک تقریباً قربانی عملاً ضروری ہے، اسی لیے ہمارے فقہاء کرام نے صراحت کر دی ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے بجائے اس کی رقم صدقہ کر دیتا ہے تو قربانی ادا نہیں ہوگی بلکہ اس کے ذمہ باقی رہے گی(٧)۔


اس لیے قربانی کے دنوں میں ہر صاحب نصاب پر قربانی کرنا واجب ہے اس کی رقم صدقہ کرنے یا جانور بیچ کر دوسروں کو پیسے دینے سے قربانی نہیں مانی جائے گی بلکہ آدمی گنہگار ہوگا۔ ہاں قربانی کے ساتھ آدمی کو کوشش کرنی چاہئے کہ غریبوں اور زلزلہ یا سیلاب متاثرین کی مدد کرے، کیوں کہ وہ بھی ضروری چیز ہے، اس سلسلے میں یہ گنجائش بھی موجود ہے کہ آدمی کم قیمت میں بڑے جانور کے اندر حصہ لے لے اور باقی پیسے متاثرین کی امداد میں لگائے، نیز کرونا وائرس کی وجہ سے جن شہروں میں مکمل لاک ڈاؤن رہے وہ اگر اپنے پاس جانو پالے ہوں تو قربانی کریں ورنہ ان مقامات پر اپنی قربانی کرائیں جہاں قربانی کی سہولیات حاصل ہیں چاہے بکری اور بکرے کی قربانی چاہے بڑے جانور میں حصّہ لے کر۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 *📚📚والدليل على ما قلنا📚📚*


(١) ﺃ‍ﺷ‍‍ﻬ‍‍ﺮ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺄ‍ﻗ‍‍ﻮ‍ﺍ‍ﻝ‍: ‍ﺃ‍ﻥ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻤ‍‍ﺮ‍ﺍ‍ﺩ ‍ﺑ‍‍ﺎ‍ﻟ‍‍ﺼ‍‍ﻠ‍‍ﺎ‍ﺓ ‍ﺻ‍‍ﻠ‍‍ﺎ‍ﺓ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻌ‍‍ﻴ‍‍ﺪ, ‍ﻭ‍ﺑ‍‍ﺎ‍ﻟ‍‍ﻨ‍‍ﺤ‍‍ﺮ: ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻀ‍‍ﺤ‍‍ﺎ‍ﻳ‍‍ﺎ. (حاشية الفقه الاسلامي و ادلته للزحيلي  ٢٧٠٢/٤)


ﻭ‍ﺛ‍‍ﺎ‍ﻟ‍‍ﺜ‍‍ﺎ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻤ‍‍ﻄ‍‍ﻠ‍‍ﻮ‍ﺑ‍‍ﺔ ‍ﻣ‍‍ﻦ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻐ‍‍ﻨ‍‍ﻲ‍ ‍ﺩ‍ﻭ‍ﻥ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻔ‍‍ﻘ‍‍ﻴ‍‍ﺮ ‍ﻓ‍‍ﻲ‍ ‍ﻛ‍‍ﻞ‍ ‍ﻋ‍‍ﻴ‍‍ﺪ, ‍ﻣ‍‍ﻦ‍ ‍ﻏ‍‍ﻴ‍‍ﺮ ‍ﻧ‍‍ﺬ‍ﺭ ‍ﻭ‍ﻟ‍‍ﺎ ‍ﺷ‍‍ﺮ‍ﺍﺀ ‍ﻟ‍‍ﻠ‍‍ﺄ‍ﺿ‍‍ﺤ‍‍ﻴ‍‍ﺔ, ‍ﺑ‍‍ﻞ‍ ‍ﺷ‍‍ﻜ‍‍ﺮ‍ﺍ ‍ﻟ‍‍ﻨ‍‍ﻌ‍‍ﻤ‍‍ﺔ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺤ‍‍ﻴ‍‍ﺎ‍ﺓ, ‍ﻭ‍ﺇ‍ﺣ‍‍ﻴ‍‍ﺎﺀ ‍ﻟ‍‍ﻤ‍‍ﻴ‍‍ﺮ‍ﺍ‍ﺙ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺨ‍‍ﻠ‍‍ﻴ‍‍ﻞ‍ ‍ﻋ‍‍ﻠ‍‍ﻴ‍‍ﻪ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺴ‍‍ﻠ‍‍ﺎ‍ﻡ‍ ‍ﺣ‍‍ﻴ‍‍ﻦ‍ ‍ﺃ‍ﻣ‍‍ﺮ‍ﻩ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻠ‍‍ﻪ‍ ‍ﺗ‍‍ﻌ‍‍ﺎ‍ﻟ‍‍ﻰ ‍ﺑ‍‍ﺬ‍ﺑ‍‍ﺢ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻜ‍‍ﺒ‍‍ﺶ‍ ‍ﻓ‍‍ﻲ‍ ‍ﺃ‍ﻳ‍‍ﺎ‍ﻡ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻌ‍‍ﻴ‍‍ﺪ, ‍ﻓ‍‍ﺪ‍ﺍﺀ ‍ﻋ‍‍ﻦ‍ ‍ﻭ‍ﻟ‍‍ﺪ‍ﻩ‍, ‍ﻭ‍ﻣ‍‍ﻄ‍‍ﻴ‍‍ﺔ ‍ﻋ‍‍ﻠ‍‍ﻰ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺼ‍‍ﺮ‍ﺍ‍ﻁ‍ (٢), ‍ﻭ‍ﻣ‍‍ﻐ‍‍ﻔ‍‍ﺮ‍ﺓ ‍ﻟ‍‍ﻠ‍‍ﺬ‍ﻧ‍‍ﻮ‍ﺏ‍, ‍ﻭ‍ﺗ‍‍ﻜ‍‍ﻔ‍‍ﻴ‍‍ﺮ‍ﺍ ‍ﻟ‍‍ﻠ‍‍ﺨ‍‍ﻄ‍‍ﺎ‍ﻳ‍‍ﺎ. الفقه (الاسلامي و ادلته للزحيلي ٢٧٠٦/٤ الأضحية)


(٢) عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا، وَأَشْعَارِهَا، وَأَظْلَافِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا " (سنن الترمذي حديث نمبر ١٤٩٣)


(٣) عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ ؟ قَالَ : " سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاه ِيمَ ". قَالُوا : فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ ". قَالُوا : فَالصُّوفُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ ".

حكم الحديث: ضعيف جدا. (سنن ابن ماجة حديث نمبر ٣١٢٧. مسند احمد حديث نمبر ١٩٢٨٣. سنن الترمذي حديث نمبر ١٤٩٣)


(٤) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا ".

حكم الحديث: حسن. (سنن ابن ماجة حديث نمبر ٣١٢٣)


(٥) ﻭ‍ﺃ‍ﺟ‍‍ﻤ‍‍ﻊ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻤ‍‍ﺴ‍‍ﻠ‍‍ﻤ‍‍ﻮ‍ﻥ‍ ‍ﻋ‍‍ﻠ‍‍ﻰ ‍ﻣ‍‍ﺸ‍‍ﺮ‍ﻭ‍ﻋ‍‍ﻴ‍‍ﺔ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺄ‍ﺿ‍‍ﺤ‍‍ﻴ‍‍ﺔ. ‍ﻭ‍ﺩ‍ﻟ‍‍ﺖ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺄ‍ﺣ‍‍ﺎ‍ﺩ‍ﻳ‍‍ﺚ‍ ‍ﻋ‍‍ﻠ‍‍ﻰ ‍ﺃ‍ﻧ‍‍ﻬ‍‍ﺎ ‍ﺃ‍ﺣ‍‍ﺐ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺄ‍ﻋ‍‍ﻤ‍‍ﺎ‍ﻝ‍ ‍ﺇ‍ﻟ‍‍ﻰ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻠ‍‍ﻪ‍ ‍ﻳ‍‍ﻮ‍ﻡ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻨ‍‍ﺤ‍‍ﺮ (الفقه الاسلامي و ادلته للزحيلي ٢٧٠٣/٤)


(٦) ﻭ‍ﻗ‍‍ﺎ‍ﻝ‍ ‍ﻏ‍‍ﻴ‍‍ﺮ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺤ‍‍ﻨ‍‍ﻔ‍‍ﻴ‍‍ﺔ: ‍ﺇ‍ﻧ‍‍ﻬ‍‍ﺎ ‍ﺳ‍‍ﻨ‍‍ﺔ ‍ﻣ‍‍ﺆ‍ﻛ‍‍ﺪ‍ﺓ ‍ﻏ‍‍ﻴ‍‍ﺮ ‍ﻭ‍ﺍ‍ﺟ‍‍ﺒ‍‍ﺔ, ‍ﻭ‍ﻳ‍‍ﻜ‍‍ﺮ‍ﻩ‍ ‍ﺗ‍‍ﺮ‍ﻛ‍‍ﻬ‍‍ﺎ ‍ﻟ‍‍ﻠ‍‍ﻘ‍‍ﺎ‍ﺩ‍ﺭ ‍ﻋ‍‍ﻠ‍‍ﻴ‍‍ﻬ‍‍ﺎ. (الفقه الاسلامي و ادلته للزحيلي ٢٧٠٤/٤)


(٧) ﻓ‍‍ﻠ‍‍ﺎ ‍ﻳ‍‍ﺠ‍‍ﺰ‍ﺉ‍ ‍ﻓ‍‍ﻴ‍‍ﻬ‍‍ﺎ ‍ﺩ‍ﻓ‍‍ﻊ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻘ‍‍ﻴ‍‍ﻤ‍‍ﺔ. (الفقه الاسلامي و ادلته ٢٧٠٣/٥)

 *كتبه العبد محمد زبير الندوي* 

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی