*⚖سوال و جواب⚖* 


*مسئلہ نمبر 1008*


(کتاب الاضحیہ، باب الاداء)


 *مال حرام سے قربانی کرنے سے وجوب کا سقوط* 


 *سوال:* اگر کسی شخص نے مال حرام مثلاً سود رشوت جوئے کے پیسے سے قربانی کردی تو کیا وجوب ساقط ہوجائے گا، یا دوبارہ قربانی کرنی ہوگی؟ (عبد الستار اعظمی، تھائی لینڈ)


 *بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم* 


 *الجواب وباللہ التوفیق* 


مال حرام کو اپنے استعمال میں لانا درست نہیں ہے اور اسے عبادات میں استعمال کرنا مزید برا ہے، اس کا اصل مصرف یہ ہے کہ جس کا مال ہے اسے واپس کردیا جائے اور اگر واپسی ممکن نہ ہو تو فقراء ومساکین پر صدقہ کردیا جائے، اگر کسی نے عبادات مثلاً قربانی وغیرہ میں استعمال کر لیا تو وجوب تو ساقط ہوجائے گا لیکن اسے اس کا ثواب نہیں ملے گا، وجوب اس لیے ساقط ہوجائے گا کیونکہ اس رقم سے جانور خریدنے کے بعد آدمی اس کا مالک ہوگیا ہے اپنی ملکیت کو ذبح کرنے سے قربانی ہوجاتی ہے لیکن چونکہ مال حرام سے خریدا تھا اس لیے ثواب نہیں ملے گا الا یہ کہ اتنی رقم صدقہ کردے جتنے میں جانور خریدا تھا۔(١) فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 *📚والدليل على ما قلنا📚* 


(١) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا. (صحيح مسلم رقم الحديث ١٠١٥ كِتَابٌ : الزَّكَاةُ.  | بَابٌ : قَبُولُ الصَّدَقَةِ مِنَ الْكَسْبِ الطَّيِّبِ، وَتَرْبِيَتُهَا)


الَّذِي يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ مَغْصُوبٍ أَوْ يَتَوَضَّأُ بِمَاءٍ مَغْصُوبٍ، أَوْ يَحُجُّ بِمَالٍ حَرَامٍ. كُلُّ هَذِهِ الْمَسَائِلِ عِنْدَنَا سَوَاءٌ فِي الصِّحَّةِ خِلَافًا لِأَحْمَدَ، وَالْعِلَّةُ في مَا تَقَدَّمَ أَنَّ حَقِيقَةَ الْمَأْمُورِ بِهِ مِنْ الْحَجِّ وَالسُّتْرَةِ وَصُورَةِ التَّطَهُّرِ قَدْ وُجِدَتْ مِنْ حَيْثُ الْمَصْلَحَةُ لَا مِنْ حَيْثُ الْإِذْنُ الشَّرْعِيُّ، وَإِذَا حَصَلَتْ حَقِيقَةُ الْمَأْمُورِ بِهِ مِنْ حَيْثُ الْمَصْلَحَةُ كَانَ النَّهْيُ مُجَاوِرًا وَهِيَ الْجِنَايَةُ عَلَى الْغَيْرِ كَمَا فِي الدَّارِ الْمَغْصُوبَةِ. (أنوار البروق في أنواع الفروق.)


أما إجزاؤها عن العقيقة فهي مجزئة عند الجمهور. (إسلام ويب رقم الفتوى ١٤٧١٥١)


لو اخرج زكاة المال الحلال من مال حرام ذكر فى الوهبانيه أنه يجزئ عند البعض. رد المختار (ج٧/ص٥٥)


إن المشترى بحرام بعينه حرام معين كثمن المغصوب حلال طيب إلا أن يشار إليه حين العقد و يسلم فيكون المبيع ملكا خبيثا. (شرح الطريقة المحمدية ٢٠٦)


 *كتبه العبد محمد زبير الندوي* 

دار الافتاء 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی