کسی شخص کا پوری امت کی طرف سے قربانی کرنا

 *🥀سوال وجواب🥀*


🌻مسئلہ نمبر 1212🌻


(کتاب الاضحیہ باب المتفرقات)


*کسی شخص کا پوری امت کی طرف سے قربانی کرنا*


*سوال:* کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی مطابعت میں کوئی شخص پوری امت کی طرف سے قربانی کر سکتا ہے؟ ائمہ مجتہدین یا علماء کی اس بارے میں کیا آرا ہیں؟ میں نے ایک جگہ پڑھا تھاکہ کچھ علماء اسے صرف آپﷺ کی ذاتِ گرامی کےلئے ہی مخصوص مانتے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو ان کے دلائل کیا ہیں؟ جواب سے نوازیں تو نوازش ہو گی۔  (عبد الرحمن لکھنؤ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


قربانی شریعت اسلامی کی ایک اہم عبادت اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام و اسمعیل علیہ السلام کی عظیم یادگار ہے، یہ ہر عاقل بالغ آزاد صاحب نصاب پر فرض ہے، چنانچہ ہر صاحبِ نصاب کے لئے قربانی کرنا ضروری ہے، قربانی میں ایک چھوٹا جانور ایک ہی شخص کی طرف سے ذبح ہوسکتاہے، اسی طرح بڑے جانور میں کم سے کم ایک اور زیادہ سے زیادہ سات لوگ اپنی قربانی کراسکتے ہیں، یہ تو واجب قربانی کی بات ہوئی، رہی نفلی قربانی کرکے متعدد افراد کو اس کا ثواب پہنچانا یا پوری امت کو اس کے ثواب میں شریک کرنا تو یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اور یہ عمل رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ عام ہے اور کوئی بھی اپنی نفلی قربانی میں تمام امت کو شریک کرسکتا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔*


*📚والدليل على ما قلنا 📚*


(١) عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ۔  (سنن الترمذي رقم الحديث1502 أَبْوَابُ الْأَضَاحِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي الِاشْتِرَاكِ فِي الْأُضْحِيَّةِ)


قَالَ : هَذَا عَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : لَا تُجْزِئُ الشَّاةُ إِلَّا عَنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ. (سنن الترمذي رقم الحديث 1505)


عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَّى بِكَبْشٍ أَقْرَنَ، وَقَالَ : " هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي ".  (مسند أحمد رقم الحديث 1105 مُسْنَدُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)


وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمة سمينة تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 70/5 كتاب الاضحية في بيان محل اقامة الواجب)


إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 70/5 كتاب الاضحية في بيان محل اقامة الواجب)


*كتبه العبد محمد زبير الندوى*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی