جس گاؤں میں نماز عیدالاضحی ہوتی ہے وہاں قربانی کا حکم


 *🥀سوال وجواب 🥀*


🌻مسئلہ نمبر 1213🌻


(کتاب الاضحیہ باب وقت الذبح)


*جس گاؤں میں نماز عیدالاضحی ہوتی ہے وہاں قربانی کا حکم*


سوال: ہندوستان کے وہ گاؤں اور دیہات جہاں جمعہ اور عیدین کی نمازیں ھوتی ہیں وہاں نماز عید الاضحی سے قبل قربانی درست ہوگی یا نہیں؟ (عبداللہ بہرائچ یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


ہندوستان کے وہ گاؤں اور دیہات جہاں جمعہ اور عیدین کی نمازوں کا اہتمام ہوتا ہے وہ شہر کے درجے میں ہیں اور جس طرح شہروں میں نماز عید الاضحی سے قبل قربانی درست نہیں ہے ان گاؤں اور دیہات میں بھی درست نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہروں میں نماز عید الاضحی سے قبل قربانی سے ممانعت فرمائی ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


*📚والدليل علی ما قلنا📚*


(١) ﻭﻟﻨﺎ ﻣﺎ ﺭﻭﻱ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: «ﻻ ﺟﻤﻌﺔ ﻭﻻ ﺗﺸﺮﻳﻖ ﺇﻻ ﻓﻲ ﻣﺼﺮ ﺟﺎﻣﻊ» ، ﻭﻋﻦ ﻋﻠﻲ - ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ - «ﻻ ﺟﻤﻌﺔ ﻭﻻ ﺗﺸﺮﻳﻖ ﻭﻻ ﻓﻄﺮ ﻭﻻ ﺃﺿﺤﻰ ﺇﻻ ﻓﻲ ﻣﺼﺮ ﺟﺎﻣﻊ» ، ﻭﻛﺬا اﻟﻨﺒﻲ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - «ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻴﻢ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺑﺎﻟﻤﺪﻳﻨﺔ» (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 259/1 كتاب الصلاة باب الجمعة ﻓﺼﻞ ﺑﻴﺎﻥ ﺷﺮاﺋﻂ اﻟﺠﻤﻌﺔ)


 عن ابن جريج، قلت لعطاء: ما القرية الجامعة؟ قال: ذات الجماعة والأمير والقَصَّاص والدور المجتمعة غير المتفرِّقة، الآخذة [1] بعضها ببعض كهيئة جُدَّة، قال: فجدَّة جامعة والطائف، قال: فإذا كنت في قريةٍ جامعةٍ فنُودي للصلاة من يوم الجمعة؛ فحقٌّ عليك أن تشهدها إن سمعت الأذان أو لم تسمعه. (مصنف عبد الرزاق رقم الحديث ٥١٧٩)


تقع فرضا في و القرى الكبيرة التي فيها أسواق. (رد المحتار على الدر المختار ٦/٣ زكريا)


ﻭﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺔ ﻗﺎﻝ: ﺇﺫا اﺟﺘﻤﻊ ﻓﻲ ﻗﺮﻳﺔ ﻣﻦ ﻻ ﻳﺴﻌﻬﻢ ﻣﺴﺠﺪ ﻭاﺣﺪ ﺑﻨﻰ ﻟﻬﻢ اﻹﻣﺎﻡ ﺟﺎﻣﻌﺎ ﻭﻧﺼﺐ ﻟﻬﻢ ﻣﻦ ﻳﺼﻠﻲ بهم الجمعة..... ﻭﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺒﻠﺨﻲ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﺃﺣﺴﻦ ﻣﺎ ﻗﻴﻞ ﻓﻴﻪ ﺇﺫا ﻛﺎﻧﻮا ﺑﺤﺎﻝ ﻟﻮ اﺟﺘﻤﻌﻮا ﻓﻲ ﺃﻛﺒﺮ ﻣﺴﺎﺟﺪﻫﻢ ﻟﻢ ﻳﺴﻌﻬﻢ ﺫﻟﻚ ﺣﺘﻰ اﺣﺘﺎﺟﻮا ﺇﻟﻰ ﺑﻨﺎء ﻣﺴﺠﺪ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻓﻬﺬا ﻣﺼﺮ ﺗﻘﺎﻡ ﻓﻴﻪ اﻟﺠﻤﻌﺔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٢٥٩/١ كتاب الصلاة باب الجمعة فصل شرائط الجمعة)


و يشترط للعيد ما يشترط للجمعة إلا الخطبة كذا في الخلاصة لأنه سنة بعد الصلاة و تجوز بدونها. (الفتاوى الهندية ١٦٥/١ كتاب الصلاة باب العيدين زكريا جديد) 


 عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيُعِدْ " (صحيح البخاري رقم الحديث ٩٥٤  كِتَابُ الْعِيدَيْنِ  | بَابُ الْأَكْلِ يَوْمَ النَّحْرِ)


فلا يجوز لأحد أن يضحي قبل طلوع الفجر الثاني من اليوم الأول من أيام النحر ويجوز بعد طلوعه سواء كان من أهل المصر أو من أهل القرى، غير أن للجواز في حق أهل المصر شرطا زائدا وهو أن يكون بعد صلاة العيد، لا يجوز تقديمها عليه عندنا. (بدائع الصنائع ٥/٧٣ کتاب الاضحیہ، بیروت)


كتبه العبد محمد زبير الندوى

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی