ایصال ثواب اور مروجہ قرآن خوانی : ایک تحقیقی مطالعہ مع دلائل


 ایصال ثواب کے جواز پر اجمالی نظر

 انسان جب تک زندہ ہے اس کو کامل اختیار ہے کہ خیر و نیکی کی راہ چل کر زندگی و اخرت کوسدابہار و زعفران زار بنانے یا شر اور بدی کی راہ چل کر زندگی و آخرت تباہ و برباد کرے ۔

 قرآن وحدیث سے پتہ چلتا ہے کہ انسان جب مر جاتا ہے تو اس کی زندگی کی فائل بھی بند ہو جاتی ہے تاہم چند صورتیں ہیں جس کا فائدہ اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی مرنے والے کو دم بہ دم ملتارہتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ راوی ہیں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جا تا ہے مگر تین عمل کا ثواب ملتا رہتا ہے ۔ ( 1 ) صدقہ جاری ( ۲ ) علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو ( ۳ ) اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے ۔ ارشادنبوی ہے : ” إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث : صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له » . ( رواه مسلم واصحاب السنن )

 دوسری روایت ابن ماجہ کی تفصیلی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں ۔ فرمان نبوی ہے : ” انسان کے مرنے کے بعد اس کے جن نیک اعمال کا ثواب اسے ملتا ہے وہ یہ ہیں : ( ۱ ) علم سیکھا پھر اس کی اشاعت کی ( ۴ ) نیک بیٹا چھوڑ گیا ( ۳ ) قرآن  وراثت میں چھوڑا ( ۴ ) مسجد تعمیر کی ( ۵ ) مسافر خانہ بنایا ( ۲ ) نہر کھدوائی ( 2 ) صدقہ جو اپنی تندرستی اور زندگی میں نکالا ، ان کا ثواب موت کے بعدبھی مرنے والے کو پہنچتا رہتا ہے ۔ ارشاد نبوی ہے : ” إن مما يلحق المؤمن من عمله و حسناته بعد موته ، ( ۱ ) علما علم ونشره ( ۲ ) أو ولدا صالحا ترکه ( ۳ ) أو مصفحا ....... الخ . کسی کی موت کے بعد اس کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اس کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے ، نماز جنازہ کی غرض و غایت بھی یہی ہے ، اموات کی نفع رسانی اور خدمت کی ایک دوسری صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتائی ہے کہ ان کی طرف سے صدقہ ، قربانی ، حج ، عمرو ، نماز ، روزو ، ذکر ، تلاوت یا اسی طرح کا کوئی عمل خیر کر کے اس کا ثواب ان کو ہدیہ کیا جائے ایصال ثواب اسی کا عنوان ہے ۔

 امام شافعی کے نزدیک میت کو صرف دعا اور صدقات کا ثواب پہنچتا ہے لیکن جمہور کے نزدیک ہر نفلی عبادت کا ثواب میت کو بخشا جاسکتا ہے مثلا نفلی روزہ, نفلی نماز, صدقہ ، حج ، قربانی ، دعا و استغفار ، ذکر,تسبیح ، درودشریف ، تلاوت قرآن وغیرہ ۔ حافظ سیوتی لکھتے ہیں کہ شافعی مذہب کے محققین نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی عبادت کا ثواب مرحومین کو پہنچایا جا تا رہے ۔ 

چناں چہ علماء سلف وخلف متقدمین ومتاخرین, جمہوراہل سنت والجماعت ، علامہ ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم , شیخ محمد بن عبدالوہاب اور اکابر علماءحدیث کا متفقہ فیصلہ ہے کر کوئی بھی کارخیر کر کے اس کا ثواب اموات کو ہدیہ کیا جائے تو اس کا فائدہ اموات کو ہوتا ہے ۔ اس باب میں گمراہ فرقہ صرف معتزلہ اختلاف کرتے ہیں, معتزلہ مطلق ایصال ثواب کے قائل نہیں ہیں معتزلہ نے اپنے اس باطل عقیدے کا پرچار کرنا شروع کیا تو ترجمان اہل سنت والجماعت محدث کبیر  علامہ طحاوی  نے اپنی مشہور ولازوال تصنیف عقیده طحاویہ میں مسلک حق کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے : ” وفي دعاء الأحياء و صدقاتهم منفعة للأموات . 


صدقات کا ایصال ثواب 


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ اچانک فوت ہوئیں اور انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی ، میرا گمان ہے اگر وہ بات کرتیں تو صدقہ کرتیں ، اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کو اس کا ثواب پہنچے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ عن عائشة رضي الله عنها أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله إن أمي أفتلت نفسها ولم توص وأظنها لو تكلمت تصدقت أفلها أجر إن تصدقت عنها ؟ قال نعم . » [ رواه البخاري والمسلم ] حضرت سعد بن عبادة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : کہ ام سعد فوت ہوگئی ، کون سا صدقہ فضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : پانی ، تو حضرت سعد نے کنواں کھودا اور کہا یہ ام سعد کے لیے ہے ۔ “ عن سعد بن عبادة رضي الله عنه قال : يا رسول الله إن أم سعد ماتت فأي الصدقة أفضل ؟ قال : الماء ، فحفر بئرة وقال هذه الأم سعد . “ [ رواه أحمد والنسائي وغيرهما ان احادیٹ سے ثابت ہوا کہ اگر میت کو ایصال ثواب کیا جائے تو اس کو اس کا فائدہ ہوگا ۔ 


 حج کا ایصال ثواب


 حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی اور وہ مدت پوری کرنے سے پہلے فوت ہوگئی کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ فرمایا اس کی طرف سے حج کر ، تیرا کیا خیال ہے اگر تیری والدہ کے ذمہ قرض ہوتا اور تو ادا کرتی تو ادا ہو جاتا ، اسی طرح اللہ کا قرض ادا کرو وہ بالاولی ادا ہو جاتا ہے ۔ عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : " جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إن أمي ماتت وعليها صوم شهر أفأقضيه عنها ؟ قال : لو كان على أمك دين أكنت قاضية عنها ؟ قال : نعم ! قال : فديث الله أحق أن يقضي . » [ رواه البخاري و المسلم ] 


قربانی کا ایصال ثواب


 نبی صلی الله علیہ وسلم نے دو سفید و سیاہ رنگ کے مینڈھوں کی قربانی کی ایک اپنی طرف سے ایک اپنی امت کی طرف سے ۔ “ ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين ، أحدهما عنه والآخر عن أمته . » [ رواه البيهقي ج : ۹ ، ص : ۲۹۷ / مجمع الزوائد ، ج : 4 ، ص : ۲۲ / وقال الهيثمي إسناده حسن ] حنش بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عن کو مینڈھوں کی قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے دو قربانی کی وجہ پوچھی انہوں نے فرمایا : کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ کی طرف سے بھی قربانی کیا کروں تو ایک قربانی میں آپ کی جانب سے کرتا ہوں ۔ عن حنش قال : رأيت عليا يضحي بكبشين فقلت له ما هذا ؟ فقال : " إن رسول الله صلى الله عليه و سلم أوصاني أن أضحي عنه فأنا أضحي عنه . » [ رواه أبو داود والترمذي ] امام ابوداود نے مذکورہ حدیث باب الأضحية عن الميت ( میت کی طرف سے قربانی ) کے تحت ذکر کی ہے ۔ قابل غور بات ہے کہ سید دو عالم کو بھی شوق ہے کہ مجھے قربانی کا ثواب پہنچتا رہے ، تو امت تو زیادہ اس کی محتاج ہے اگر اللہ نے توفیق دی ہے تو اپنے مرحومین کی طرف سے بھی قربانی کر دیا کریں ، ان کو بھی قربانی کے جانور کے ایک ایک بال کے بدلے نیکیاں ملیں گی ۔ 


 نماز کا ایصال ثواب 


دار قطنی نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ اے الله کے رسول ! میرے والدین جب حیات تھے تو ان کے ساتھ حسن سلوک کر کے نیکی کماتا تھا ان کی موت کے بعد ان کے ساتھ سلوک کیسے کروں ؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ” موت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ تم اپنے والدین کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لیے روزہ رکھو ۔ “ إن من البر بعد الموت أن تصلي لأبويك مع صلاتك وأن تصوم لهما مع صومك » ( بحوالہ ابن عابدین شامی ج : ۲ ص : ۲۳۷ ) 


تلاوت قرآن کا ایصال ثواب


 عبدالرحمن بن العلاء بن لجلاج نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ میرے والد لجلاج ابوخالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹے جب میں مر جاؤں تو میرے لیے بغلی قبر بنانا ، جب تم مجھے میرے لحد میں رکھنا تو بسم الله وعلى ملة رسول الله صلى الله عليه و سلم کہنا ، پھر مجھ پرمٹی برابر کرنا ، پھر سر کے پاس سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور اس کی آخری آیات پڑھنا ، بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے یہ پڑھتے ہوئے سنا ہے ۔ “ عن عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج عن أبيه قال : قال لي أبي اللجلاج أبو خالد رضي عنه : " يا بني إذا أنا ي فالخدلی لحدا فإذا وضعتني في لحدي فقل بسم الله وعلى ملة رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم سن علي التراب سنا ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة وخاتمتها فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك . » [ رواه الطبراني في الكبير وإسناده صحيح مجمع الزوائد ، ج : 3 ، ص : 44 وقال الهيثمي رجاله موثقون . بحوالہ الفقه الميسر بالدليل المنور ص : ۱۸۵ ] 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اس کو روکومت ، جلدی قبر تک پہونچاؤ اور دفن کے بعد سر کی جانب سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات ( تا مفلحون ) اور پاؤں کی طرف سورہ بقرہ کی اختتامی آیات ، ( آمن الرسول سے ختم تک ) پڑھی جائے ۔ یہ حدیث امام بیہقی نے شعب الایمان میں درج کی ہے اور لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث موقوف علی ابن عمر ہے ۔


 سورہ بقرہ کی ابتدائی اور اختتامی آیات قبر پر پڑھنے کاحکم ظاہر ہے حضرت عبداللہ بن عمر اپنی طرف سے نہیں دے سکتے تھے ، بلاشبہ یہ بات بھی انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہی سے سنی ہوگی ، اس لیے یہ حدیث سند اگر چہ موقوف ہو ، تاہم محدثین اور فقہاء کے اصول پر حکمأ مرفوع ہی کے درجہ میں ہے ۔ عن عبد الله ابن عمر رضي الله عنه قال : سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول : إذا مات أحدكم فلا تحبسوا وأسرعوا به إلى قبره ويقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة . » [ رواه البيهقي في شعب الإيمان وقال والصحيح أنه موقوف عليه .

 امام شافعی سے روایت ہے کہ انصار کے ہاں جب کوئی فوت ہو جاتا تو لوگ اس کی قبر پر آتے جاتے قرآن پڑھا کرتے تھے " أخرج الخلال في الجامع عن الشعبي قال : كانت الأنصار إذا مات المبت اختلفوا على قبره يقرأون به القرآن .

 حضرت علی کی مرفوع حدیث ہے کہ جو شخص کسی قبرستان سے گزرے اور قل هو الله أحد  گیارہ بار پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخش دے تو اسے بھی مردوں کی تعداد کے برابر ثواب دیا جائے گا ۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بخشنے والا بھی ثواب سے نوازا جاتا ہے ۔ عن علي رضي الله عنه مرفوعا : " من مر على المقابر وقرأ " قل هو الله أحد عشر مرة ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعد الأموات . [ أخرجه أبو محمد حمد السمرقندي في فضائل قل هو اللہ احد. 

  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول نے جوقبرستان میں داخل ہوکر سورہ فاتحہ ، سورہ اخلاص اور سورہ تکاثر پڑھے ، پھر کہے اے الله میں نے جو تیرا کلام پڑھا اس کا ثواب اس قبرستان کے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو پہونچے تو اللہ کی بارگاہ میں وہ سب اس کی شفاعت کریں گے ۔ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من دخل المقابر ثم قرأ فاتحة الكتاب وقل هو الله أحد وألهاكم التكاثر ثم قال اللهم إني جعلت ثواب هذا ما قرأت لأهل المقابر من المؤمنين والمؤمنات كانوا شفعاء له إلى الله تعالى . » [ رواه أبو القاسم سعد بن علي ] حوالتفسیرمظہری ، ج : 1 ص : ۱۱۹ 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص قبرستان میں جائے پھر سورہ یسین پڑھے تو اللہ ان مردوں سے عذاب کم کردے گا اور اس پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر نیکیاں ملیں گی ۔ عن أنس رضي الله عنه قال : " من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم وكان له بعدد من فيها حسنات . ( أخرجه عبد العزيز صاحب الحلال بسنده ] 

علامہ سیوطی نے لکھا ہے دفن کے وقت میت کے سرہانے سورة فاتحہ اور پاؤں کی طرف سورہ بقرہ کی آیات پڑھنا وارد ہے ۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے مرنے والوں پر سورہ یسین پڑھا کرو “ عن معقل بن يسار رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إقرأو سورة يسین على موتاكم . » [ رواه أحمد ، وأبو داؤد ، و این ماجه ]

 

اعتراضات کا جواب


 بعض لوگوں نے مالی اور بدنی عبادتوں کی تقسیم وتفریق کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف مالی عبادتوں کا فائدہ اموات کو ہوگا ، کیوں کہ منصوص ہے بدنی عبادتوں کا فائدہ اموات کونہیں ہوگا ، کیوں کہ منصوص نہیں ۔ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ یہ قیاسی حق ہے اور انکار بے دلیل ہے ، حقیقت یہ ہے کہ مالی و بدنی دونوں عبادتوں کا ایصال ثواب مخصوص و منقول ہے ، صدقات کا ایصال ثواب ہرطرح کی مالی عبادتوں کے ایصال کے لیے دلیل و حجت ہے ، روزہ کا ایصال ثواب ہر طرح کی بدنی عبادتوں کے ایصال ثواب کے لیے دلیل قاطع اور حجت تام ہے ، جب کہ حج کا ایصال ثواب دونوں طرح کی عبادتوں کے ایصال ثواب کے لیے دلیل ہے ، چناں چہ فرماتے ہیں : ” وقد نبه الشارع بوصول ثواب الصدقة على وصول سائر العبادات المالية ونبه بوصول ثواب الصوم على وصول سائر العبادات البدنية و أخبر بوصول ثواب الحج المركب من المالية والبدنية فالأنواع الثلاثة ثابتة بالنص والإعتبار فقه السنة . سید سابق ج : اص : ۳۹۹


 بعض لوگوں نے سورہ  نجم آیت نمبر ۳۹ و أن ليس للإنسان إلا ما سعی سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ میت کو قرآن خوانی کا ثواب نہیں ہوتا ہے ، جیسا کہ جناب صلاح الدین یوسف صاحب نے اس آیت کی تفسیری حاشیہ میں وضاحت کی ہے ۔ احسن البیان سوره نجم آیت نمبر ۳۹  حاشیہ نمبر ۵

 لیکن اس آیت کو سابقہ آیات سے ملا کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم امت محمدیہ کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق امت ابراہیم اور امت موسوی علیه السلام سے ہے ۔ ام ینبا بما في صحف موسى ، وإبراهيم الذي وفی ، الا تزر وازرة وزر أخرى ، وأن ليس للإنسان إلا ما سعی » مولانا جونا گڑھی ان آیات کا ترجمہ کرتے ہیں کیا اسے اس چیز کی خبرنہیں دی گئی جوموسی علیہ السلام کے ( ۳۷ ) اور وفا دار ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں تھا ( ۳۷ ) کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا ( ۳۸ ) اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔ ( ۳۹ )

 ان آیات کی شرح کرتے ہوئے علامہ شبیر احمد کہتے ہیں کہ آدمی جو کچھ کوشش کرکے کماتا ہے وہی اس کا ہے کسی دوسرے کی نیکیاں لے اڑے ایکس نہیں ہوسکتا ہے ، باقی کوئی خود اپنی خواہش سے اپنے بعض حقوق دوسرے کو ادا کر دے اور اللہ اس کو منظور کرلے وہ الگ بات ہے ۔

 ہمیشہ یہی بات مشہور سلفی عالم علامہ صالح آل شیخ مذکورہ آیت کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : آیت مذکورہ میں للإنسان پر داخل لام ، لام ملک ہے یعنی انسان صرف اپنی ہی کوشش کا مالک ہے ۔ احمد ، خالد کی محنت وکوشی کا مالک نہیں ہو گا الا یہ کہ خالد خود کوئی عمل کر کے مثل قرآن خوانی کر کے احمد کو بخش دے تو یہ بلاشبہ درست و جائز ہے ۔ فرماتے ہیں : ” وأن ليس للإنسان الأ ماسعی ، اللام هنا كما هو معروف لام الملك ، يعني الإنسان لا يملك إلا سعيه ، أحمد لا يملك .


اجتماعی قرآن خوانی


 میت کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی تو بلاشبہ درست ہے لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے ۔ ا ۔ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں ان کا مقصد محض رضاء الہی ہو, اہل میت کی شرم اور دکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے ، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پرترجیح دی جائے کہ اس میں اخلاص زیادہ ہے ۔ ۔ دوم یہ کہ قرآن کریم کی تلاوت صحیح کی جائے غلط نہ پڑھا جائے ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے ۔ ۳۔ سوم یہ کہ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو ورنہ قرآن پڑھنے والے ہی کو ثواب نہیں ہوگا ، میت کو کیا ثواب پہنچائیں گے ، ہمارے فقہاء نے وضاحت کی ہے کہ قرآن خوانی کے لیے دعوت کرنا اور صلحاء کو ختم کرنا کے لئے بلانا مکروہ ہے ۔


  تیجہ ، دسواں ، چہلم ، چالیسواں ، برسی کی حقیقت 


 تیجہ ، دسواں ، چہلم ، چالیسواں ، برسی وغیرہ ہندوانہ رسمیں ہیں ان ایام کو ایصال ثواب کے لیے مخصوص کرنا ، اور عقیدہ رکھنا کہ انہی ایام میں ایصال ثواب ہوسکتا ہے تو یہ سراسر بدعت اور ناجائز ہے بلکہ مشابہت بالكفار کی وجہ سے ممنوع قطعی ہوگا ۔ ارشاد نبوی ہے : ” من تشبه بقوم فهو منهم . “ 

طلوع شمس غروب شمس ، زوال شمس کے وقت نماز کی ممانعت کفار کی عبادت میں مشابہت سے بچنے ہی کے لیے ہے ، اختصار یعنی کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے کی ممانعت یہود کی مشابہت سے بچنے ہی کے خاطر ہے ۔ صرف یوم عاشوراء کے روزہ کی کراہیت اسی وجہ سے ہے, صوم وصال کی ممانعت کی بھی نصاری کی مشابہت سے بچنا ہے کیوں کہ یفعل ذلك النصارى ، جو شریعت اہل کتاب کی مشابہت کو ناگوار جانے وہ ہندووں ، کافروں کی برسی ، تیجہ ، چالیسواں وغیرہ کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ، جب کہ ان رسموں میں سوائے نمائش, فخر  ، دکھاوا ,خرافات ، بدعات ، اسراف نام نمود ، ناک کٹے کا ڈر ہوتا ہے نیت نیک نہیں ہوتی ، اس صورت میں ثواب ہے نہ ایصال ثواب ۔


 بریلوی مکتب فکر کے مشہور عالم مولانا شمس الدین صاحب جون پوری نے وضاحت کرتے ہوئے قانون شریعت جلد دوم ، ص : ۳۴۵ پر لکھا ہے کہ مگر یہ ضرور ہے کہ یہ کام ( ایصال ثواب ) اچھی نیت سے کیے جائیں ، نمائش نہ ہو نمود مقصود نہ ہو نہیں تو ثواب ہے نہ ایصال ثواب ۔ بعض لوگ اس موقع پر عزیز واقارب اور رشتہ داروں کی دعوت کرتے ہیں یہ موقع دعوت کا نہیں بلکہ محتاجوں فقیروں کو کھلانے کا ہے جس سے میت کوثواب ہے “ 

 نیز اعلی حضرت احمد رضا خان فرماتے ہیں : محتاجوں کو چھپا کر دے ، یہ جو عام رواج ہے کہ کھانا پکایا جاتا ہے اور تمام رشتے دار و برادری کی دعوت ہوتی ہے یہ نہ کرنا چاہیے ۔ چھپا کر دینا محتاجوں کو افضل ہے ۔ حدیث ہے : " صدقة السر تدفع ميتة السوء وتطفئ غضب الرب چھپا کردینا بری موت سے بچاتا ہے اور رب العزت جل جلالہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے ۔ الملفوظ کامل حصہ سوم  ۲۹۳ 


حنفیہ ، حنابلہ کے نزدیک یہ جائز ہے کہ انسان اپنے عمل جیسے : نماز ، روزہ ، حج ، صدقہ ، عتق ، طواف ، عمرہ ، تلاوت اور دوسری چیزوں کا ثواب دوسرے زندہ یا مردہ کے لئے کر کے بطور تطوع کے ہدیہ دے دے کیوں کہ ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين ، أحدهما عنه ، والآخر عن أمته

اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسفید و سیاہ رنگ کے مینڈھوں کی قربانی کی ، ایک اپنی طرف سے ایک اپنی امت کی طرف سے ۔ " ( رواه ابیہقی ج : ۹ ، ص : ۲۹ مجمع الزوائد ، ج ۳ ، ص ۲۳ ) وقال الهيثمي : إسناده حسن


 اور عمرو بن شعيب عن ابیہ عن جدہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن العاص سے جب انہوں نے اپنے والد کے سلسلے میں پوچھا تھا فرمایا : ” لو كان مسلم فأعتقتم عنه أو تصدقتم عنه أو حججنم عنه بلغه ذلك . “ [ رواه أبوداؤد ] اگر وہ مسلمان ہوتے اور تم ان کی طرف سے آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا حج کرتے تو یہ ان کو پہونچتا ،


 حضرت انس سے مروی ہے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم اپنے مردوں کی طرف سے صدقہ ،حج کرتے ہیں اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں تو کیا ان کو پہنچتا ہے فرمایا : " نعم ! إنه ليصل إليهم وإنهم ليفرحون به كما يفرح أحدكم بالطبق إذا أهدى إليه » . [ رواه أبو حفص عكبري ) بحوالہ ابن عابدین ۴۰ ص ۲۲۷ ،

 ہاں بلاشبہ ان کو پہنچتا ہے اور وہ اس سے اس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے کوئی اس وقت خوش ہوتا ہے جب اس کو طاق میں رکھ کر کچھ ہدیہ پیش کیا جاتا ہے اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : " إن من البر بعد الموت أن تصلي لأبويك مع صلاتك وأن تصوم لهما مع صومك » . [ رواه دار قطني - موال ابن عابدین ج : ۳ ص : ۲۳ موت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک میں سے بھی ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لیے روزہ رکھو ۔


 خلاصہ یہ ہیکہ صدقات ، خیرات مرحومین کے لیے وقف کرنا ، مسجد بنانا ، مدارس تعمیر کرنا ، دینی کتابیں مہیا کرنا ، پانی کا نظم کرنا ، حج ، روز و نماز ، تلاوت ، ذکر ، درود تسبیح,  فقراء ، مساکین کو کھانا کھلانا ، ان کی کفالت کرنا, ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا قربانی کے موقع سے قربانی کرنا ، روز کچھ نہ کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا سب ثابت ہے ، باقی خرافات ، رسم ورواج ایجاد بندہ ہے اور ایجاد بندہ تمام تر گندہ ۔ 


اللہ نیکی کی راہ پر چلائے, قرآن وسنت کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین 


1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

  1. بریلوی حضرات کل خوانی اور سیوم وغیرہ کو کیا کہتےہیں ان کا حکم شرعی کیا ہے ان کے نزدیک ۔۔؟
    باحوالہ

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی