ماہر تعلیم پروفیسر انیس چشتی حیات و خدمات

ذهبت تلك السنون وأهلها

فكأنها وكأنهم أحلام

حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃاللہ علیہ کے گذر جانے کا غم ابھی تازہ تھا کہ پروفیسر انیس چشتی صاحب رحمۃاللہ علیہ بھی ہم لوگوں کو داغِ مفارقت دے گئے۔ ان کی وفات کا غم علم و فن سے محبت رکھنے والوں کے لئے بالکل دوسری نوعیت کا تھا۔ یوں سمجھئے کہ آپ سخت پیاسے ہوں اور پانی کا گلاس آپ کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر جائے اور آپ کی تشنگی بجھانے والا پانی زمین کے سینے میں جذب ہوجائے اور آپ ہاتھ مَل کر رہ جائیں۔

پروفیسر انیس چشتی صاحب رحمۃاللہ علیہ کا میدان صرف اور صرف علم تھا۔ اسی بنیاد پر وہ علماء اور مدارس خاص طور پر دارالعلوم ندوۃ العلماء اور اس کے اکابر سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ ندوے کی مجلس انتظامی کے رکن بھی تھے۔ علم کے اسی سچے تعلق کی بنیاد پر وہ اکثر ندوے آیا کرتے تھے۔(انتقال سے چند روز  پہلے بھی حضرت ناظم صاحب کی زیارت اور حضرت مہتمم صاحب کی عیادت کے لئے وہ ندوے آۓ تھے) اس لئے بارہا ان سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور ان کے بیانات سننے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔ ان کے علم میں گہرائی اور وسعت دونوں تھی۔ جس میں نہ علم دین کی کوئی تقسیم تھی نہ علم دنیا کا کوئی بٹوارہ۔ ذاتی تجربہ کی بنیاد پر بغیر کسی تکلف اور لاگ لپیٹ کے یہ بات  کہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے میدان کے تنہا باکمال شخص تھے۔ اور انہیں اپنی بات پیش کرنے کا سلیقہ بھی تھا۔

 ان کی تقریر خالص علمی نوعیت کی ہوتی۔ کبھی موضوع سخن ہوتا " پانی "۔ بس کیا تھا۔ دنیا میں پانی کی کتنی قسمیں ہیں؟ ان تمام قسموں کی کیا کیا خاص باتیں ہیں؟ قرآن وحدیث میں ان کے بارے میں کیا اشارے آئے ہیں؟  اور موجودہ سائنس ان کے بارے کیا کہتی ہے‌؟ ان کا ہماری زندگی سے کتنا گہرا ربط ہے؟ الغرض گھنٹوں ایک ہی عنوان پر بولتے جاتے۔  سننے والے بالکل حیرت زدہ' دم بخود اور خاموش۔  اور اس طرح کان لگائے ہوئے کہ کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے۔ بہت سے طلباء کے ہاتھ میں ڈائری بھی ہوتی۔ اہم باتیں اور اشاریے وہ لکھتے جاتے۔ کبھی موضوع سخن ہوتا پتھر، کبھی آکسیجن،  کبھی اور کوئی علمی یا سائنسی موضوع‌۔ اور ہر موضوع پر گفتگو قرآن وحدیث اور عصری تحقیقات دونوں کی روشنی میں۔ معہد دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ثانوی درجہ کے طلباء میں بیان ہوتا تو علم کی فضیلت کے ساتھ ساتھ علم کی ضرورت پر ایسا بیان ہوتا کہ یوں محسوس ہوتا کہ تحصیل علم  کے بغیر زندگی گذارنا جائز ہی نہیں ہے۔ ان کا بیان سننے کے لیے اکثر طلباء وقت سے پہلے ہی ہال پہنچ جاتے اور اگلی صفوں میں جگہ لے لیتے۔ بیان کے بعد ہفتوں مہینوں ان کی باتیں موضوع سخن بنی رہتیں۔ اور کچھ دنوں تک تو سوائے مطالعہ کے کچھ اچھا ہی نہیں لگتا۔ 

مزید پڑھیں

مولانا ولی رحمانی:ایک بے باک مرد آہن اور ملت کے بے لوث قائد-حیات و خدمات اہم تجزیہ


نکسل واد یا نکسل ازم / ماؤ واد یا ماؤ ازم کیا ہے. تہلکہ خیز انکشاف

وہ ماہر تعلیم بھی تھے اور چالیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف بھی۔  اس کے علاوہ اردو ادب اور خاص طور پر اقبالیات کے ماہر تھے۔ اس لئے ان کی گفتگو ادب سے لبریز، صاف ستھری،  سہل، اور باسلیقہ ہوتی۔ اِنہیں خوبیوں اور خصوصیات کی بنا پر طلباء، اساتذہ اور ذمہ دار سب کو ان کی گفتگو سے برابر کا فائدہ ہوتا۔ 

ان کی وفات یقیناً اس حدیث کی مصداق ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ علم کو یک بیک نہیں اٹھا لے گا بلکہ علم کو علماء کی موت سے اٹھاتا جائے گا۔ 

آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ لیکن دلِ ناداں  اتنی آسانی سے کہاں مانتا ہے۔ وہ اب بھی یہ جھوٹی آس لگائے ہوئے ہے کہ وہ آئیں گے اور علم کے موتی بکھیر جائیں گے۔ 

لیکن ان کی یادیں  زبان حال  سے کہہ رہی ہیں۔

حشر تک اب زباں نہ کھولیں گے

تم پکاروگے ہم نہ بولیں گے

واضح رہے کہ ماہر تعلیم پروفیسر انیس چشتی نے اپنی عمر کی 79 بہاریں دیکھیں اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے کتب فروش مرزاعبدالقیوم ندوی کی تحریر کے مطابق انیس چشتی کی پیدائش 6/فروری 1943کو پونہ میں ہوئی آپ کے والد شکیل احمد چشتی مجاہد آزادی تھے، ابتدائی تعلیم پونہ میں ہوئی اعلی تعلیم سولاپور اور ہونہ میں ہوئی آپ ہونہ کے مشہور اسکول مولدینہ اردو ہائی اسکول میں معلم تھے اور مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے کہنے پر تحریک پیام انسانیت کے لیے ایک قبل از ریٹائرمنٹ لے لیا تھا اور پوری طرح اپنے آپ کو اس تحریک کے لیے وقف کردیا تھا.. آپ کے خاص رفیق مفسر قرآن مولانا عبدالکریم پاریکھ صاحب کے ساتھ ملک بھر دورہ کیا.انیس چشتی کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ جن میں اردو، مراٹھی، ہندی،انگریزی، عربی، فارسی اور بھی دیگر زبانیں شامل تھیں۔ وہ بہت اچھے انسان، ذی علم شخصیت، ایک اچھے استاذ، ایک اچھے خوش نویس، ایک معتبر اہل قلم، ایک خوش بیاں مقرر، اعلیٰ افسران کے تربیتی اداروں کے پینل میں شامل گیسٹ لیکچرار تھے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک صاحب دل اور نفیس انسان تھے. چالیس سے زائد ملکوں کا سفر کیا ہے.. سعودی عرب، امریکا، انگلینڈ، کناڈا، فرانس، روس، اٹلی، آسٹریلیا اور دیگر کئی اسلامی ممالک شامل ہیں.ان کا انتقال ملت کا عظیم خسارہ ہے جسے پورا نہیں کیا جا سکتا.  (مرزا عبد القیوم ندوی کی تحریر سے مستفاد)

اللہ تعالیٰ ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور پوری امت مسلمہ اور خاص طور پر ہمارے علماء، صلحاء، دانشوران، اور قائدین ملت سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔ 

مبین احمد اعظمی ندوی

استاد معھد دارالعلوم ندوۃ العلماء سکروری لکھنؤ 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی