پندرہ شعبان کی فضیلت 

شب برأت اور پندرہ شعبان کی فضیلت


(کچھ ضروری باتیں اور وضاحتیں)

شعبان المعظم کا مہینہ ان مہینوں میں سے ہے جن کی فضیلت و اہمیت مسلم ہے، اس مہینے میں خیر و برکت کے دروازے وا کر دیئے جاتے ہیں، برکتیں اتاری جاتی ہیں، بندوں کے اعمال بارگاہ خداوندی میں پیش کئے جاتے ہیں، دعائیں اور مناجاتیں خصوصی طور پر قبول ہوتی ہیں؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس مہینے میں نماز روزہ اور نیک اعمال کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اللہ کے حضور اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزے سے ہوں (ابن ماجہ و طبرانی)۔ اس لئے اس مہینے میں کار خیر اور عبادات بطورِ خاص روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے اور اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے خوب سے خوب اس ماہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ چنانچہ اس مہینے میں شب برأت اور پندرہ شعبان کا روزہ عوام الناس میں خاصی دلچسپی کے باعث ہیں اور اس سلسلے میں کافی شد و مد پائی جاتی ہے؛ اس لئے ان سے متعلق چند ضروری وضاحتیں پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

 

شب برأت کی فضیلت 



پندرہ شعبان کی جو رات ہے اسی کو "شب برأت" کہا جاتا ہے، شب برأت کا مطلب یہ ہے کہ اس رات میں اللہ کے بندوں کو جہنم سے براءت اور خلاصی حاصل ہوتی ہے، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: شعبان جب آدھا ہوجاتا ہے تو اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی ساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے (ابنِ ماجہ)  عن أبي ثعلبة، قال النبي صلى الله عليه وسلم : "إن الله يطلع على عباده في ليلة النصف من شعبان فيغفر للمؤمنين، ويملي للكافرين، و يدع أهل الحقد بحقدهم حتى يدعوه".  رواه أحمد في مسنده، وابن حبان في صحيحه، وابن أبي شيبة في المصنف، والطبراني في الكبير والأوسط، وبنحوه في شعب الإيمان للبيهقي، قال الهيثمي في المجمع: رواه الطبراني في الكبير والأوسط ورجالهما ثقات. وهو في صحيح الجامع حديث رقم (771).
وفي رواية عن أبي موسى:"إن الله تعالى ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك، أو مشاحن".صحيح الجامع حديث رقم (1819).
مشاحن: أي مخاصم لمسلم أو مهاجر له .اس لئے اس رات میں بندے کو چاہئے کہ اپنے رب کی جانب متوجہ رہے اور اس کی خاص رحمت و مغفرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرے؛ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: شعبان کی پندرہویں رات آئے تو اللہ کے حضور نوافل پڑھا کرو (ابن ماجہ حدیث نمبر ١٣٨٨) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: چار راتوں میں اللہ تعالیٰ خیر کو خوب بڑھا دیتے ہیں؛ منجملہ ان میں شعبان کی پندرہویں رات بھی ہے (ابنِ ماجہ) اس لئے اس رات عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے، 


شب برأت میں عبادت کا طریقہ 



لیکن اس اہتمام کا طریقہ یہ ہے کہ تنہا تنہا یہ رات گزاری جائے نہ کہ جمگھٹا بنا کر اسے گزارا جائے، مشہور فقیہ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ نے فتاویٰ شامی میں اسی طریقے پر اس رات کو گزارنے کی بات نقل کی ہے(رد المحتار علی الدر المختار جلد اول) لیکن ہمارے معاشرے میں ہوتا یہ ہے کہ لوگ جوق در جوق مسجدوں میں جاتے ہیں اور دنیا کی باتیں کرتے ہیں اور کچھ عبادت باقی ادھر ادھر کی باتوں میں ساری رات کاٹ دیتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔


مروجہ رسومات کی حقیقت


اسی طرح اس رات قبرستان جانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور وہاں بھی چراغاں اور نا جانے کیا کیا کیا ہوتا ہے، اس سلسلے میں معلوم ہونا چاہیے کہ پوری حیات طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک بار پندرہ شعبان کی رات قبرستان جانا ثابت ہے اور وہ بھی بالکل چپکے سے؛ حتی کہ امی جان حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی آپ نے نہ بتایا اور نہ انہیں جگایا؛ اس لئے اگر زندگی میں ایک دو بار شب برأت میں قبرستان چلا جائے تو بہتر ہے! مگر اسے ہر سال کا معمول بنا لینا اور شب برأت کے لوازمات میں شمار کرنا یقیناً غلط ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔


Read more 

فیشن پرستی اور اس کی نحوست -اہم انکشافات

ایام بیض کن دنوں کو کہتے ہیں ؟ایام بِیض کے روزوں کی فضیلت


اس رات عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں کو سجاتے، قمقمے لگاتے اور پٹاخے پھوڑتے ہیں؛ بلکہ شہروں میں تو لوگوں کے مکانوں میں لگے باہری بلب اور ٹیوب لائٹ وغیرہ کو بھی پھوڑ دیتے ہیں جس کی شریعت میں قطعاً گنجائش نہیں ہے، یہ ناکہ گناہ کبیرہ ہے بلکہ ظلم اور بیجا اسراف بھی ہے۔ ایسی حرکتوں سے ثواب تو درکنار انسان گناہ کے انبار اپنے سر لادتا ہے۔


شب برأت میں کرنے کے کام


اس رات کرنے کے کاموں میں نفل نمازیں، تلاوت قرآن کریم، توبہ و استغفار، دعا و مناجات ہیں، ان کاموں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، اپنے اور بیگانے ہر ایک کے لئے خیر طلب کرنا چاہیے اور جہاں تک ہوسکے رو دھو کر اپنے مالک کو منا لینا چاہیے۔


شب برأت کے روزہ کا حکم


اس سلسلے میں دوسرا مسئلہ پندرہ شعبان کے دن کا ہے کہ آج کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟؟ اس دن سب سے پہلے تو روزے کا مسئلہ ہے، ہمارے معاشرے کے دیندار طبقے میں عموما اس دن روزہ رکھنے کا رواج ہے، جسے اکثر عوام سنت اور پڑھے لکھے لوگ مستحب سمجھتے ہیں، جبکہ بعض حضرات ایسے بھی ہیں جو سرے سے اس دن کے روزے کے منکر ہیں اور اسے بدعت قرار دیتے ہیں؛ لیکن اس سلسلے میں معتدل بات یہ ہے کہ *پندرہ شعبان کا روزہ کم سے کم جائز اور زیادہ سے زیادہ مستحب ہے، اس روزے کو نہ ہی سنت و واجب کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی حرام و بدعت کہا جاسکتا ہے،* جائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح شعبان کی دیگر تاریخوں میں روزہ رکھا جاسکتا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت روزہ رکھنا ثابت ہے، اسی طرح پندرہ شعبان کو بھی روزہ رکھنا جائز ہے اور چونکہ پندرہ شعبان ان دنوں میں سے نہیں ہے جن میں روزہ رکھنا حرام ہے؛ اس لئے اس دن روزہ رکھنے سے منع بھی نہیں کیا جا سکتا ہے، اور اس دن روزہ رکھنا زیادہ سے زیادہ مستحب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ابن ماجہ وغیرہ کتب احادیث میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس دن روزہ رکھا کرو، یہ روایت گو کہ ضعیف ہے مگر موضوع یا باطل نہیں ہے اور چونکہ اس کے مقابلے میں کوئی صحیح صریح روایت ممانعت کی موجود بھی نہیں ہے؛ اس لئے یہ روایت قابل عمل ہے؛ کیونکہ ضعیف روایت پر اس وقت عمل نہیں کیا جاتا ہے جب اس کے بالمقابل صحیح روایت موجود ہو اور ظاہر ہے کہ یہاں کوئی صحیح روایت نہیں ہے، اس لئے اس روایت سے پندرہ شعبان کو روزہ رکھنا ایک گونہ فضیلت کا باعث ہے اور اس فضیلت کو مستحب کا نام دیدیا گیا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کو سنت و واجب کا درجہ نہ دیا جائے اور روزہ نہ رکھنے والوں کو بری نظر سے نہ دیکھا جائے اور نہ ہی اس پر اصرار کیا جائے۔ 


البتہ اگر کوئی شخص اس روزے کو سنت بنانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ایام بیض کے روزے کے طور پر یہ روزہ رکھے اور اس کے ساتھ میں تیرہ چودہ کو بھی روزہ رکھ لے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول ان تاریخوں میں روزہ رکھنے کا تھا۔


شب برأت میں حلوہ کی حقیقت 


پندرہ شعبان کو ایک اہم رسم ہمارے معاشرے میں رواج پکڑ گئی ہے حلوہ پکانے کی، اس روز بہت سے حضرات حلوہ پکاتے ہیں اور کھاتے کھلاتے ہیں اور اسے پندرہ شعبان کا ایک جزء شمار کرتے ہیں اور نہ پکانے والوں کو برا خیال کرتے ہیں؛ حالانکہ یہ چیز سراسر غلط اور بے اصل ہے، اس کا تعلق نا ہی شعبان کی کسی فضیلت سے ہے اور نا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ، تابعین و ائمہ مجتہدین اور بزرگان دین سے ہے، یہ رسم حقیقتاً واجب الترک ہے،حقیقت یہ ہے کہ شیعہ اس دن کو اپنے امام غائب کی پیدائش کا دن شمار کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خوشیاں مناتے ہیں اور آتش بازی کرتے ہیں جس کی دیکھا دیکھی اہل سنت اور خاص طور پر بریلویوں نے اس رسم کو اپنا لیا اور ان کی نقالی کرنے لگے جو کسی بھی طرح جائز نہیں, خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے صحیح راستہ پر قائم و دائم رکھے اور ایمان کے ساتھ دنیا سے اٹھائے۔ آمین۔



تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی