اطاعت والدین اور ان کا مقام و مرتبہ

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد 

ووصینا الانسان بوالدیہ احسانا حملتہ امہ کرہا ووضعتہ کرہا 

ابتدا ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید کو بخوبی جانتا ہے 

والدین کائنات انسانی کا ایسا پھول ہیں جس کی خوشبو کبھی بھی کم نہیں ہوتی بلکہ دن بدن نکھرتی بکھرتی اور فضا میں پھیلتی جاتی ہے .ماں باپ اس   درخت کو کہتے ہیں جس کا پھل کبھی کڑوا نہ ہو جس کا پھول کبھی مرجھائے نا جس کا تنا کبھی کمزور نہ پڑے جس کی خوشبو سے سارا معاشرہ سدا معطر اور منور رہے۔ 

قارئین عظام !  

اللہ تعالیٰ نے کائنات میں افضل اور اشرف مخلوق انسان کو بنایا ہے۔ والدین درحقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں،ہمارا وجود والدین کی وجہ سے ہوتا ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے۔محبت کا جذبہ فطری طور پر بدرجہ اتم والدین کو عطا کیا گیا ہے۔اولاد کے لئے والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں،والدین کی جس قدر عزت و توقیر کی جائے گی اسی قدر اولاد سعادت سے سرفراز ہوگی شریعت میں والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾

(ترجمہ)

اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے میں پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف بھی نہ کہنا ،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا ۔

(بنی اسرائیل:23)

یہ بھی پڑھیں 

فیشن پرستی اور اس کی نحوست -اہم انکشافات


حجرہ نبوی کی مکمل تاریخ - بے حد اہم تجزیہ

مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ والدین کے ساتھ حُسن سلوک کرو اور اُف تک بھی نہ کہو،والدین کی عزت واحترام دینی و دنیاوی بہتری کا سبب ہوتا ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر والدین کا سایہ ہے اور سعادت مند ہے وہ اولاد جو ہر حال میں اپنے والدین کے ساتھ حُسن سلوک رکھتی ہے اور ان کا احترام کرتی ہے۔


وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۴)

اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اسے اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے کہ میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا ۔ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙ۳۶﴾

ترجمہ :-

اور اللہ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، نیز رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، قریب والے پڑوسی ، دور والے پڑوسی ، ( ٢٩ ) ساتھ بیٹھے ( یا ساتھ کھڑے ) ہوئے شخص ( ٣٠ ) اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں کے ساتھ بھی ( اچھا برتاؤ رکھو ) بیشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا ۔

(النساء:36)

ماں باپ کی نافرمانی تو کجا ، ناراضگی کے اظہار اور جھڑکنے سے بھی روکا گیا ہے اور ادب کے ساتھ نرم گفتگو کا حکم دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ترجمہ) ’’اور اپنے والدین کو جھڑک مت اور ان سے نرمی سے پیش آ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ پوری زندگی والدین کے لئے دعا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا (ترجمہ) اور تو کہہ کہ اے میرے رب میرے والدین پر رحم کر جس طرح بچپن میں انہوں نے میری تربیت کی۔


(بنی اسرائیل: 25)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟آ پ ﷺ نے ارشاد فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ۔ حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں میں نے کہا اس کے بعد کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا والدین کی فرمانبرداری۔

(صحیح بخاری)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ آپؐ کے ساتھ ہجرت اور جہاد کرنے کیلئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ تو اس شخص نے کہا: دونوں حیات ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص سے پوچھا: کیا تو واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا طالب ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے والدین کے پاس جا اور ان کی خدمت کر۔


(صحیح مسلم)

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ میرے حُسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارا باپ۔

(صحیح بخاری)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے ۔ چنانچہ تمہیں اختیار ہے خواہ ( اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھا کے) اس دروازہ کوضائع کردو یا ( اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔


(جامع ترمذی)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر دراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھا دیا جائے اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے ۔


(مسند احمد بن حنبل)

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا وہ شخص ذلیل وخوار ہو۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! کون ذلیل و خوار ہو ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر(ان کی خدمت کے ذریعہ) جنت میں داخل نہ ہو۔


مکرم قارئین ! 

والدین کی خدمت انسان کا سب سے بڑا جہاد ہے بلکہ انہی کی خوشنودی سے اللہ کی خوشنودی ہے جیساکہ رحمت کائناتؐ کا ارشاد گرامی ہے:

اللہ کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی)

ایک دوسرے مقام پر والدین کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا:

سیدنا ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہؐ ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ فرمایا: تیری جنت اور دوزخ وہی دونوں ہیں۔ (ابن ماجہ)

یعنی ماں باپ کا اولاد پر بہت حق ہے۔ ان کے ساتھ نیکی کرنا اور دکھ نہ پہنچانا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا دخول بہشت کا ذریعہ ہے۔ تو انہیں تکلیف پہنچانا، رنج و غم دینا اور نافرمانی و بدسلوکی کرنا، دوزخ میں جانے کا موجب ہے۔ اس لیے فرمایا کہ تیری جنت و دوزخ وہی دونوں ہیں۔ گویا انسان انہیں راضی رکھ کر رب کی رضا حاصل کر سکتا ہے 

ماں کے بارے میں تو یہاں تک کہہ دیا کہ الجنۃ تحت اقدام الامھات جنت تو ماں کے قدموں کے نیچے ہے 


قارئین مکرم. !

 والدین کی عزت و احترام دینی ودنیاوی بہتری کا سبب ہوتی ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر والدین کا سایہ ہے اور سعادت مند ہے وہ اولاد جو ہر حال میں اپنے والدین کے ساتھ حُسن سلوک رکھتی ہے اور اُن کا احترام کرتی ہے۔۔۔


بات دراصل یہ ہے کے والدین اللہ کی دو بڑی صفات سے متصف ہیں۔۔۔

١۔ اللہ خالق حقیقی ہے۔۔۔

٢۔ تو والدین خالق مجازی۔۔۔

اللہ تعالٰی حقیقی رب ہے تو والدین مجازی رب ہیں۔۔۔


توحید وعبادت کے بعد اطاعت وخدمت والدین واجب ہے۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کے انسان کے وجود میں آنے کا سبب تو اللہ تعالٰی کی حقیقی ذات ہے کہ اس نے اس کو پیدا کیا اور ظاہری سبب والدین ہیں پس اللہ تعالٰی عبادت کے لائق ہوا اور اس کے بعد والدین احسان وشکر اور فرمانبرداری کے مستحق ہوئے اسی بات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی ہے۔۔۔


حدیث مبارک کا مفہوم ہے۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔

عن عبد الرحمن بن أبي بکرة عن أبيه قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم ألا أخبرکم بأکبر الکبائر قالوا بلی يا رسول الله قال الإشراک بالله وعقوق الوالدين

عبدالرحمن بن ابی بکرہ ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ نہ بتلا دوں، لوگوں نے عرض کیا، کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، اللہ کا شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ (رواہ البخاری)۔۔۔


اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوا۔۔۔

جو شخص اپنے والدین کی طرف ایک نظر محبت سے دیکھتا ہے تو اُس کو حج مقبول کا ثواب ملتا ہے صحابہ نے عرض کیا اگر دن میں سو مرتبہ دیکھئے؟؟؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اللہ بزرگ وبرتر ہے اور پاک تر ہے (رواہ بیہقی)۔۔۔


یہ بات اظہر من الشمس ہے کے اللہ تعالٰی کی خلقت میں سے کسی کا احسان اس قدر نہیں جس قدر والدین کا احسان اولاد پر ہوتا ہے پھر اولاد کو والدین کا اتنا شکر کرنا چاہئے اور اس قدر اطاعت وفرمانبرداری بجالانی چاہئے کے ساری خلقت میں سے کسی کی نہیں کرنی چاہئے۔۔۔ اولاد والدین کے جسم کا ایک ٹکڑا ہوتے ہیں۔۔۔ اسی لحاظ سے والدین اولاد کے ساتھ ازحد محبت وشفقت کرتے ہیں اپنی زندگی اولاد پر چھڑکتے ہیں ہر طرح کی نیکی اور بھلائی اولاد کو پہنچاتے ہیں تمام عمر ان کے لئے کماتے ہیں اور آخر ساری کمائی اور جائیداد خوشی سے ان کیلئے چھوڑ کر ماجاتے ہیں پس اللہ تعالٰی کے ارشاد ک مطابق نیکی کا بدلہ بجز نیکی کیا ہوسکتا ہے۔۔۔


هَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ

نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ (سورہ رحمٰن آیت ٦٠)۔۔۔


سوچیں غور کریں کہ والدین جو نیکی اولاد کے ساتھ کرتے ہیں کیا کوئی اور بھی ایسی نیکی کرتا ہے؟؟؟۔۔۔ ہرگز نہیں تو پھر اولاد کو بھی والدین کے ساتھ بےمثال نیکی، خیرخواہی، محبت، احسان اور فرمانبرداری کرنا ضروری ہے اپنی جان اولاد اور مال ماں باپ پر قردینا چاہئے اگر اولاد والدین کی خدمت وفرمابرداری نہ کرے گی تو اللہ تعالٰی کی نافرمانی اور گنہگار ہوکر مرے گی۔۔۔


قارئین عظام ! آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں والدین کے حقوق کو جس طرح پامال کیا جا رہا ہے ان پر جس طرح کا ظلم روا رکھا جا رہا ہے انہیں دھکے مار کر جس سے گھروں سے نکالا جا رہا ہے اس کی تاریخ کسی اور دور میں نہیں ملتی یقینا وہ ترقی یافتہ معاشرہ ہر گز نہیں ہو سکتا جہاں والدین کی عزت کو پامال کیا جائے جہاں والدین کو اولڈ ایج ہوم میں ڈال دیا جائے انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے وہ تو ناقدروں بے وقوفوں اور ناہنجاروں کا جنگی معاشرہ ہو سکتا ہے 


اور سوچنے کا مقام کہ کیا ہم آج ان شفیق والدین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں جو ہمارے دنیا میں آنے کا سبب ہیں.   کیا ہم آج ان بوڑھے والدین کی عزمت کو تار تار کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیں عزت و عظمت کی بلندیوں تک پہونجا.    


کیا ہم آج ان نحیف و بے کس والدین کو اپنے گھروں سے نکال باہر کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیں ہر قسم کا ٹھکانا دیا اپنا آنچل دیا اپنی گود جیسا مضبوط ٹھکانا دیا اور کیا ہم آج اپنی اس ماں پر تشدد کا رویہ اختیار کر رہے ہیں جس نے ہمیں نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھا پھر دو سال تک دودھ کی شکل میں اپنا خون پلایا پھر انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اور ایک ہٹا کٹا کڑیل جوان بنایا دیا ذرا تو سوچو میرے دوستوں کہ یہ کہاں کا پیمانہ عدل و انصاف ہے, کہاں کا میزان صداقت ہے کہ ایک طرف پھول ہی پھول اور دوسری طرف کانٹے ہی کانٹے ان ہی وجوہات کی بناء پر سرور کائنات نے ارشاد فرمایا کہ والدین کا نافرمان آخرت میں تو عذاب سے دوچار ہو گا ہی لیکن دنیا میں بھی اللہ جل جلالہ مرنے سے پہلے اسے تکلیف اور نافرمانی کے وبال سے دوچار کریں گے اس لئے والدین کی نافرمانی سے توبہ کریں اور ان کی قدر کریں بقول شاعر 

اے ضیاء اپنے ماں باپ کے سائے کی نا قدری نہ کر 

دھوپ بہت کاٹے گی جب یہ شجر کٹ جائے گا 


ایک شاعر نے خون جگر سے ماں کی ممتا پر اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا۔ 

غلافِ خانہ کعبہ کبھی جز دان لگتا ہے 

دوپٹہ ماں کے سرپر سورہ رحمن لگتا ہے 

بہاریں دین و دنیا کی اسی آنچل سے لپٹی ہے 

نہ ہو گھر میں قدم ماں کا تو گھر ویران لگتا ہے 

بالفاظ دیگر 

آندھیوں سے بچا کر رکھو اپنے آنگن کا بوڑھا شجر 

یہ شجر ہی اگر گر گیا پھر کہانی سنائے گا کون 


بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشان چھوا 

اٹھایا گود میں ماں نے تب آسمان چھوا

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی