استاد سے متعلق یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ روحانی باپ ہے۔ یہ بات بالکل سچ ہے اور حدیث سے ثابت بھی ہے۔ 

Ustad ka ihtiram


ابو ھریرہ (ت 59ھ) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « *إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ ٱلْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ*» بلاشبہ میں تمہارے لئے والد کی مانند ہوں، تمہیں سکھاتا ہوں۔ 

( *سنن أبي داود*: 8، سنن النسائي: 40، سنن ابن ماجه: 313، صححه الشيخ الألباني ).


استاد بحیثیت روحانی باپ ہونے میں صرف تعلیم وتربیت ہی کا خیال نہیں رکھتا ہے، بلکہ طلباء کی صحت، آرام، بھوک پیاس کا بھی خیال رکھتا ہے۔ 


طالب علم کو نیند آ رہی ہو تو کلاس میں کھڑا کردینا سستا کام ہے، مگر اس کی نفسیات کا خیال کرکے نیند، بھوک، اور گھریلو حالات کا بھی خیال رکھنا؛ بہت مہنگا کام ہے، اور یہ بہترین استاد کی علامت ہے۔ پھر شرعی علم دینے والوں میں اس کا لحاظ رکھنا غیر معمولی اہم ہو جاتا ہے۔


*سب سے عظیم معلِّم رسول اللہ ﷺ*


رسول اللہ ﷺ صحابہ کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ ان کی عمر، عقل، صحت، گھریلو حالات، ازدواجی زندگی، وغیرہ ہر طرح کی نگرانی کیا کرتے تھے۔ اس لئے کہ لفظ (( روحانی باپ )) ہلکا پھلکا لفظ نہیں ہے، بلکہ ایک *کردار* کا نام ہے۔ 


رسول اللہ ﷺ اپنے طلبہ کی بھوک کا بہت خیال رکھا کرتے تھے، سیرت رسول سے اگر مثالیں اکٹھا کریں تو ایک موسوعہ (( انسائیکلوپیڈیا )) تیار ہو جائے گا۔ یہاں ایک واقعہ ذکر کروں گا۔ 


*جابر بن عبد اللہ* (ت 70ھ کے بعد) انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں (( خندق )) کے موقع پر کھدائی کے دوران ایک بڑی چٹان آگئی، خود رسول اللہ ﷺ نے اسے توڑا۔ 

اور *وَبَطْنُهُ مَعْصُوْبٌ بِحَجَرٍ* بھوک کی وجہ سے آپ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے۔

 

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم بھی تین دن سے بھوکے پیاسے تھے۔ 

میں فوراً گھر گیا اور اپنی اہلیہ سے کہا: *رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا مَا كَانَ فِيْ ذَالِكَ صَبْرٌ* آج میں نے نبی ﷺ کو اس حالت میں دیکھا ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہو سکی۔ 

بہر حال جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ آپ اور آپ کے ساتھ دو تین آدمیوں کی گنجائش ہے، گھر پر آ جائیں۔ 

آپ ﷺ اکیلے یا اپنے ساتھ صرف دو تین کا خیال نہیں کیا، بلکہ بآواز بلند فرمایا: « *يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ! إنَّ جَابِراً  قَدْ صَنَعَ سُوراً فَحَيَّ هَلّا بِكُمْ*» اے اہل خندق! آج جابر نے تمہارے لئے ضیافت تیار کی ہے، آؤ جلدی چلیں۔  

(( تفصیل کے لئے دیکھئے: *صحيح البخاري*: كتاب المغازي. رقم: 4101، صحیح البخاری: كتاب الجهاد. رقم: 3070 ).


یہ عادتِ مبارکہ کسی بھی استاد کے لئے اختیار کرنا ضروری ہے، خصوصاً شرعی علم دینے والے اساتذہ اس میں بھی نمونہ رہیں۔ 


*عبد اللہ بن لھیعۃ* الحضرمی (ت 174ھ) رحمہ اللہ اپنے استاد *درَّاج بن سَمْعان ابو السَّمح* (ت 126ھ) کے بارے میں کہتے ہیں:

  *كَانَ كَرِيْمًا، وَكَانَ إذَا أَتَاهُ مَنْ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لَمْ يُحَدِّثْهُ حَتّٰى يَطْعَمَ عِنْدَهُ* آپ نہایت محترم استاد تھے، آپ کے پاس جب بھی کوئی طلب علم کے لئے آتا تو آپ اس کو اپنے پاس ضیافت کا اہتمام فرماتے تھے۔ 


*حفص بن غیاث* (ت 194ھ) معروف کوفی عالم دین ہیں، مشہور قاضی ہیں، آپ کہا کرتے تھے:

 *مَنْ لَمْ يَأْكُلْ طَعَامَنَا لَمْ نُحَدِّثْهُ* جو ہمارے دستر خوان پر نہیں ہوگا اس کو سبق نہیں دیا جائے گا۔ 


عبد اللہ بن صالح کہتے ہیں: *صَحِبْتُ اللَّيْثَ عِشرين سَنَةً لَا يَتَغَدَّى وَلَا يَتَعَشّٰى إلَّا مَعَ النَّاسِ* میں لیث بن سعد الفہمی مصری (ت 175ھ) رحمہ اللہ کی صحبت میں بیس (20) سال رہا آپ دوپہر (ظہرانہ) اور رات کا کھانا لوگوں یعنی طلباء کے ساتھ ہی کھایا کرتے تھے۔


*نوٹ*


یہ سب واقعات حافظ ابو الحجاج المزی (ت 742ھ ) کی (( *تهذيب الكمال في أسماء الرجال* )) سے لئے گئے ہیں، جو ان اسمائے گرامی (( تراجم )) کے تحت دیکھے جا سکتے ہیں۔ 


یہ واقعات پیش کرنے میں بڑی دشواری ہوئی ہے کہ اس کثرت سے واقعات ہیں کہ ان میں انتخاب کرنا بھی آزمائش ہے۔ 


*تنبیہ*


مذکورہ علماء بہت ہی معروف شخصیات ہیں، مگر ہم میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ چند ہی علماء سے واقف ہیں بقیہ نام آتے ہی اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔ یہ افسوس ناک بات ہے۔ 


*آخری بات*


ایک بہترین معلم کے لئے ضروری ہے کہ طلباء کی تعلیم وتربیت کے ساتھ اس کی نجی زندگی سے بھی واقف ہوکر اس کی مدد کریں، اس کو مضبوط کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بہترین معلم بنائے۔ 

محمد معاذ أبو قحافة

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی