امام حسین رضی اللہ عنہ کے اصل قاتل وہ کوفی غدار,خبیث, مکار , منافق , بزدل ہیں جنہوں نے بیعت کرنے کے بعد بیعت توڑ دی , اور نواسئہ رسول کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا اور خود دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے. 

فلسفہ شہادت حسین اور یزید کی بیعت


فتنہ سبائیت کی حقیقت 

اس پورے معاملے کو سمجھنے کے لیے فتنہ سبائیت کو سمجھنا ہوگا, کیونکہ قتل حسین اصل میں فتنہ سبائیت کا ہی نتیجہ ہے ,

عبد اللہ بن سبا یہ ایک یہودی النسل  اور یہودی فتنہ گر  انسان تھا, اس نے اسلام کا لبادہ اوڑھا اور یہودی عقائد کا پرچار اسلامی رداء میں کرنا شروع کیا اس کے پیش نظر اسلام کے اس امن و امان کو تار تار کرنا تھا جو تقریباً تیس سال سے پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ فگن تھا, 


عبد اللہ ابن سبا مدینہ منورہ آیا اور اس نے لوگوں کے سامنے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف زہر افشانی کرنی شروع کی اور وہیں دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی مدح و سرائی کا زمزمہ شروع کیا اور تین چیزیں پیش, جو اسلامی استحکام کو فنا کرنے کے لیے کافی تھیں, 


عبداللہ ابن سبا کی تین تجاویز 

1. پہلی بات جو اس نے پیش کی وہ یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خدا کے اوتار ہیں 

2. دوسری بات یہ پیش کی کہ ہر نبی کا ایک موصی ہوتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے موصی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں 

3. تیسری بات یہ تھی کہ اس نے خاندانی عصبیت کو ابھارا کہ حضور صلعم تو بنو ہاشم میں سے تھے لہذا خلافت بنو ہاشم کا حق ہے نا کہ بنو امیہ کا کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بنو امیہ میں سے تھے اس نے یہ باور کرایا کہ یہ غاصب ہیں حالانکہ اس سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ دونوں ان دونوں خاندانوں میں سے نہیں تھے, 

Read More 

ناصبی کسے کہتے ہیں. آغاز , عروج , حکم اور تاریخی پس منظر


استشراق کیا ہے ؟ مستشرق کسے کہتے ہیں ؟ تعریف،آغاز اور جد و جہد

ان عقائد کو پھیلانے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت سے برخاست کرنے کے لیے عبد اللہ ابن سبا نے گروہوں کو تشکیل دیا اور ان کو الگ الگ شہروں میں بھیجنا شروع کیا کہ وہ اگر کوفہ جائیں تو مصر کے گورنر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کےخلاف زہر افشانی کریں اور مصر جائیں تو کوفہ کے گورنر کے خلاف چیمی گویاں پھیلائیں, یہی ہوا اور اس کا نتیجہ حضرت عثمان کے قتل کی شکل میں نکلا 

اس کے بعد سبائیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لئے چنا اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے انکار کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کے عہدے کو قبول کر لیا اور اپنا دارالحکومت کوفہ قرار دیا.  سبائیوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شانا بہ شانا رہنا شروع کردیا اور جب اماں عائشہ نے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات نے قاتلان عثمان سے بدلہ لینے کا مطالبہ کیا تو کوفہ کی مسجد میں دس ہزار لوگوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے کہ ہم قاتل ہیں ہم سے بدلہ لو, یہی دشواری پیش آئی جس کی وجہ سے دشمنوں سے بدلہ نہیں لیا جا سکا. اس کے نتیجے میں جنگ صفین اور جنگ جمل کی مشہور مشاجرات پیش آئے جس میں تقریباً 1 لاکھ مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے. یہ بھی فتنہ سبا کا نتیجہ تھا, 

اس کے بعد مسئلہ تحکیم کی وجہ سے شیعان علی کے دو گروہ ہو گئے اور خوارج نے جنم لیا اور ابن ملجم خارجی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا,  یہ بھی فتنہ سبائیت کا نتیجہ تھا, 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ چھ ماہ خلافت پر متمکن رہے اور حضور کی پیشین گوئی کے مطابق خلافت حضرت معاویہ کے حوالے کر دیا ,اور بیس سال تک بڑی ہی بہترین حکومت کی کہ سبائی فتنہ سر ہی نہ اٹھا سکا لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد جب یزید نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو اس فتنہ نے پھر سر اٹھانا شروع کیا

بیعت یزید کی حقیقت  

اور وہیں دوسری طرف یزید کی بیعت سے چار صحابہ نے ہاتھ روک لیا جنمیں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہا, حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا, حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہا, اور حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہا تھے, بعد میں امت کی خوں ریزی کی وجہ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا اور عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہا نے تسلیم کر لیا, لیکن ابن زبیر اور حسین رضی اللہ عنہ اپنی بات پر اٹل رہے لیکن دونوں کی رائے میں اختلاف ہو گیا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں مکہ میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں مقابلہ کر کے اس کو انجام تک پہنچانا چاہیے,

 اور اسی اثناء میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفیوں نے کوفہ آنے کی دعوت دینی شروع کر دی ,حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی سمجھا کہ وہاں پہنچ کر یزید کا مقابلہ کرنا بہتر ہوگا حالات کا جائزہ لینے کے لیے محمد بن عقیل کو کوفہ بھیجا ان کے پہونچتے ہی بارہ ہزار افراد نے بیعت کر لی لیکن ابن زیاد کی دھمکیوں کے سامنے یہ بیعت انھوں نے توڑ دی اور محمد بن عقیل کو بھی ابن زیاد نے شہید کرا دیا کوفہ کے حالات دیکھتے ہی دیکھتے بدل گئے, حسین رضی اللہ عنہ کی اس کی خبر ملی تو انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا لیکن محمد بن عقیل کے بیٹے سامنے آگئے انھوں نے کہا کہ ہم باپ کا بدلہ لیے بغیر واپس نہیں لوٹ سکتے اس کے نتیجے میں واقعہ کربلا پیش آیا جو آپ کو بخوبی معلوم ہے 

امام حسین رضی اللہ عنہ کی تین تجاویز 

جنگ سے پہلے حسین رضی اللہ عنہ نے تین فرمائش کی تھیں , مجھے واپس جانے دو, مجھے کسی محاذ پر بھیج دو یا پھر مجھے یزید کے پاس جانے دو تاکہ میں اپنا معاملہ خود نمٹا لوں لیکن کوفی سبائیوں نے ایسا نہیں کرنے دیا کیونکہ انہیں پتا تھا کہ اگر یہ یزید کے پاس جائیں گے تو ہماری پول کھول کر رکھ دیں گے کہ ہم نے ہی انہیں یزید کے مقابلے میں دعوت دی تھی اسکی ڈاکومنٹری پروفس حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے خطوط کی شکل میں موجود تھے یہی وجہ تھی کہ سبائیوں نے جنگ کے بعد خیمہ جلا دے تاکہ کوئی ثبوت ان کے خلاف نہ رہ جائے. 


یقینا امام حسین کا قاتل یزید ہے لیکن ان کی شہادت فتنہ سبائیت کے نتیجہ تھی اور کوفہ سبائیوں کا مرکز تھا, کوفی لا یوفی کا محاورہ بالکل بجا ہے کہ انہیں کی بیعت توڑنے کے نتیجے میں ایسا دن دیکھنا پڑا. 


واقعہ حرہ 


اس جگہ میں ایک بات اور عرض کر دوں جو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ یزید اور بنی امیہ کی تاریخ کا تاریک ترین واقعہ سب سے زیادہ بھیانک اور گھناؤنا واقعہ جو واقعہ کربلا سے بڑھ کر بھی ہے وہ واقعہ حرہ کے نام سے جانا جاتا ہے جب مدینہ منورہ میں کچھ لوگوں نے یزید کی بیعت سے انکار کیا تو اس نے فوج بھیجی اور مدینہ کو فتح کرنے کے بعد تین دن تک کے لئے ہر چیز کو حلال کر دیا کہ جس کا چاہو مال لوٹو جس کا چاہو گھر تباہ کر دو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس عورت کے ساتھ چاہو ریپ اور زنا کرو یہ سب مدینۃ الرسول میں ہوا 

اس لئے حسین  رضی اللہ عنہ کی جنگ یزید سے کوئی سیاسی جنگ نہ تھی بلکہ اسی فساد کو روکنے کے لیے تھی 


یقیناً سانحہ کربلا لوگوں کو یہ درس دیتا ہے کہ جو حق ہے اس پر جمے رہو چاہے تمہیں جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑے. 


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی