Babri Masjid
 Babri Masjid bbc.com

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی سنگ بنیاد


22-23دسمبر 1949ء کی درمیانی رات جس میں بابری مسجد میں چوری چھپے مورتیاں رکھی گئی تھیں، سے لے کر 9؍نومبر 2019ء جس دن بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کردی گئی ، تک یہ ستر سالہ دور ایک طرف تو ہندو احیاء پرست طاقتوں کی فرقہ پرستی، دہشت گردی، قتل و غارتگری کی ایک طویل سیاہ خونی داستان اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی بزدلی، بے ہمتی، بے غیرتی، بے حمیتی، بے بصیرتی، بے سمتی اور بے حسی کی ایسی داستان عبرت بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس کا نوحہ ستر صدیوں تک بھی پڑھا جائے تو شاید کم ہوگا۔

آج جب کہ بابری مسجد کی جگہ عالیشان و فلک بوس رام مندر کے سنگ بنیاد کے جشن کی تیاریاں بڑے زور و شور سے جاری ہیں اور ہم مسلمان جس کرب میں مبتلا ہیں اور جو بے بسی و لاچاری محسوس کررہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ ستر سال سے ہمارے سینے لہو لہو ہیں ۔ ہم مسلمانان ہند کے سینے میں گھونپا جانے والا یہ کونسا خنجر ہے اس کا حساب کرنے سے ہم قاصر ہیں۔ ہمارے دلوں پر لگایا جانے والا یہ کونسا زخم ہے اس  کے شمار سے ہم عاجز ہیں،ہر دن ایک اور زخم تازہ ہمارا منتظر رہا کرتا ہے۔ ان ستر سالوں میں ہم صرف لہو لہان ہی نہیں ہوئے بلکہ شریعت سے لے کر شہریت تک سب کچھ گنوا کر تہی دست بیٹھے ہیں۔ ہر دن ہمیں اپنے شعائر، شریعت، شناخت، سالمیت، اپنے وجود کی بقاء اور تحفظ کے تئیں خطرات لاحق رہے ہیں۔ اپنے حقوق کے چھن جانے کے اندیشوں میں مبتلا رہے ہیں۔ اپنی جان و مال کے خوف کا شکار رہے ہیں، جب جب ہم کسی بڑے سانحے سے گزرے ہیں یہ خوف بڑھتا ہی رہا ہے۔ 


اس سائٹ کی دوسری مشہور تحریریں 

کلک کرکے ضرور پڑھیں 


ان ستر سالوں میں مسلسل منصوبہ بند ناانصافیوں اور حق تلفیوں کے ذریعہ ہمیں مایوسیوں کے اندھیروں اور نا امیدیوں کے دلدلوں کی طرف ڈھکیلا گیا ہے۔ ذہنی، فکری اور نظریاتی طور پر مفلوج کیا گیا ہے اور یہ احساس دلایا گیا کہ اگر مسلمانوں کو اس ملک میں رہنا ہے تو دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری یا غلام کی حیثیت سے ، بحیثیت مسلمان اس ملک میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

پہلے بات تھی مسلمانوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری اور غلام بنانے کی۔ لیکن آج جبکہ ہندوتوا تحریک پورے عروج پر ہے اور رام جنم بھومی تحریک کامیاب ہوچکی ہے، رام مندر کی تعمیر میں اب بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور پورا ملک ایک ہندو راشٹر میں تبدیل ہونے جارہا ہے تو اب بات ہورہی ہے کہ کیا کسی ہندو راشٹر میں کسی مسلمان کے لئے کوئی جگہ ہوگی؟ کیا اس ملک میں کسی مسلمان کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہوگا؟ اب سوال مسلمانوں کے مستقبل کا نہیں بلکہ زندہ رہنے کا آگیا ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی تأمل نہیں کہ آٹھ سو سال حکمرانی کے بعد صرف ستر برسوں میں اس ملک میں ہماری یہ تنزلی، بے چارگی و لاچاری، مظلومیت و بے بسی ہماری اپنی خود کی مسلط کردہ ہے اس دوران ہم نے اپنی بقاء اور تحفظ کے لئے اتنے ہاتھ پیر بھی نہیں مارے جتنا کوئی ڈوبنے والا شخص مار لیتا ہے۔ ہر خطرے کے موقع پر ڈٹ کر مزاحمت کرنے کے بجائے خوشامد، چاپلوسی، جی حضوری، مصلحت، مداہنت اور منافقت کی ریت میں سر چھپا کر ہم نے یہ سمجھ لیا کہ خطرہ ٹل جائے گا اور آج بھی اس نازک وقت میں یہی طرز عمل اختیار کرکے سمجھ رہے ہیں کہ خطرہ ٹل جائے گا۔
رام مندر کی تعمیر کے بعد حالات مسلمانوں کے لئے کتنے سنگین اور بدتر ہوجائیں گے ہر ذی شعور اس کا اندازہ لگا سکتا ہے لیکن تعجب ہے کہ ہم مسلمانا نِ ہند پر اب بھی غفلت طاری ہے۔ جمود ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں… بزدلی ہے کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی۔ عام مسلمان ہوں کہ دانشوران و مفکران، واعظان و مفتیان ہوں کہ علماء و نام نہاد قائدین سب کے سب دم سادھے بیٹھے ہیں۔ کوئی تیار نہیں کہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔ قوم کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرے۔ آگے بڑھنے کے لئے کوئی لائحہ عمل پیش کرے۔ عزم و حوصلہ کی بات کرے۔ مایوسیوں کے اندھیرے دور کرنے کی کوئی تدبیر کرے۔ کسی قوم کی طرف سے ایسے طرز عمل کا اظہار اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوتا ہے کیا بحیثیت قوم کہ ہم نے اجتماعی خود کشی کا ارادہ کرلیا ہے؟!!
یاد رکھیں کہ ہر قوم پر ایسا ایک وقت آتا ہے جو اس کی زندگی یا موت کے پروانے پر دستخط کرتا ہے اس وقت اس قوم کو زندگی یا موت کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جو قومیں اس وقت عزم و حوصلہ، ہمت و جرأت، عزیمت و استقامت دکھاتی ہیں … مزاحمت کا راستہ اختیار کرتی ہیں، زندہ رہ جاتی ہیں اور جو قومیں بزدلی و بے ہمتی کا شکار ہوجاتی ہیں … پسپائی و خود سپردگی کا راستہ اختیار کرتی ہیں وہ صفحۂ ہستی سے مٹادی جاتی ہیں۔

ہم مسلمانانِ ہند کے لئے یہ وقت ایسا ہی ہے اگر عزم و حوصلہ، ہمت و جرأت، استقامت و عزیمت دکھائیں گے تو نہ صرف زندہ رہیں گے بلکہ پورے ایمان اور عزت کے ساتھ زندہ رہیں گے ورنہ تو نتیجہ ظاہر ہی ہے اور ہر دن ہم اپنے موت کے پروانے پر دستخط کرہی رہے ہیں۔ اس طرح 25 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا بے حسی اور بزدلی کی موت مرجانا تاریخ عالم کا ایک عبرتناک عجوبہ ہوگا۔

بعینہ ہمارے جیسے بلکہ ہم سے بدتر حالات سے فلسطینی مسلمان گزر رہے ہیں۔ 70 سالوں سے انہیں بھی مسجد اقصیٰ کے تحفظ اور خود ان کی اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ لیکن ان کی حالت ہم ہندوستانی مسلمانوں کی حالت سے بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے کبھی بھی بے حوصلگی، بے ہمتی اور بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کبھی بھی بحیثیت قوم کے پسپائی و خود سپردگی اختیار نہیں کی۔ بلکہ مسلسل مزاحمت اور استقامت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ہر دن مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اپنی جائیداد اور املاک کا نقصان برداشت کررہے ہیں اور ہر طرح کی قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ پر ہی ان کے تحفظ کا انحصار ہے۔ مسجد اقصیٰ کی بقاء ہی ان کی بقاء کی ضامن ہے یہ فلسفہ اور یہ نکتہ ہم مسلمانانِ ہند کو بھی سمجھناہوگاکہ بابری مسجد کی بازیابی کے ذریعہ ہی ہم اپنا وجود باقی رکھ سکتے ہیں اور اس کی تعمیر کے ذریعہ ہی اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ بقول مولانا عبدالعلیم اصلاحی صاحب کہ قدرت کی مہربانی کہ اس نے ہمارے سارے مسائل کو ایک مسئلہ میں سمیٹ دیا ہے جیسے کسی فوج کو درجنوں محاذوں پر لڑنے کے بجائے قدرت نے ایسے حالات پیدا کردیئے ہوں کہ وہ ایک ہی محاذ پر قوت آزمائی کرے اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا کر فتح مند ہوجائے یا اپنے نکمے پن کا ثبوت دے کر پسپا ہوجائے۔

یہ عذر کوئی معنی نہیں رکھتا کہ ہم کمزور ہیں اور دشمن طاقتور… محض اپنے آپ کو کمزور سمجھنے اور اقلیت میں ہونے کی بناء پر اللہ کی راہ میں جدوجہد نہ کرنے کی ذہنیت ایک بڑے مرض کی علامت ہے۔ قرآن نے بنی اسرائیل کے دو گروہوں کا تذکرہ کیا ہے جب کہ انہیں جالوت سے لڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اللہ نے انہیں جب جالوت سے لڑنے کا حکم دیا تو ان کے ایمانی طور پر کمزور گروہ نے کہا :
لا طاقۃ لنا الیوم بجالوت و جنودہ
’’آج ہمارے اندر جالوت اور اس کی فوجوں سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔‘‘

لیکن بنی اسرائیل کے دوسرے گروہ نے جو اپنے دلوں میں حرارت ایمانی رکھے ہوئے تھا اور جس کی تعداد صرف 313 تھی اس نے کہا :
قال الذین یظنون انھم ملقوا اللہ کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ واللہ مع الصابرین۔(البقرہ:249)

’’یعنی جنہیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا، انہوں نے کہا کتنے ہی چھوٹے گروہ ہیں جو بڑے گروہ پر غالب ہوگئے اللہ کے اذن سے۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اس وقت ہم بنی اسرائیل کے اسی دور سے گزر رہے ہیں اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس گروہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو ایمان والے گروہ کے طور پر منوانے کی ٹھان لیں تو بابری مسجد کی بازیابی کی راہ میں فلک بوس مندر بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اور انشاء اللہ اک دن بابری مسجد دوبارہ اپنی جگہ پر ضرور کھڑی ہوسکتی ہے۔
اپنے سینوں میں میرے زخم کو تازہ رکھنا

پھر سے تعمیر کا تم میری ارادہ رکھنا
ڈاکٹر ظل ھما 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی