میرے محترم قارئين ۔
آج ہم جس موضوع سے آپ کو روبرو کرانے جا ریے ہیں وہ بہت ہی اہم اور تاریخی مسٸلہ ہے وہ فلسطین کا مسٸلہ ہے اور وہاں قابض ہونے والی اسرائيلی افواج کا مسٸلہ ہے ساتھ ہی ساتھ ہم کلام کریں گے 2019 میں امریکہ کے توسط سے اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان طے پائے جانے والے ایک ایسے معاہدہ کے بارے میں جسے ڈیل آف سنچری یعنی صدی کی ڈیل کہا گیا ہے جس معاہدے کے تناظر میں اسرائیل کا فلسطین پر مکمل قبضہ ہونا طے ہے . اور گوگل میپ پر فلسطین کا نام ظاہر نہ ہونے کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالیں گے. فلسطین دنیا کا نقطہ اختتام بھی ہے بہت سے تاریخی حقائق اس سر زمین  سے وابستہ ہیں ان پر بھی قدر تفصیل روشنی ڈالی جائے گی.اور اس مسئلہ کے پیچھے جو غیبی ہاتھ ہیں اور جو دل خراش داستان ہے اسے بھی ظاہر و باہر کیا جائے گا بس آپ صبر و سکون کا مظاہرہ کیجئے اور بہت ہی اہم اور ضروری معلومات سے مستفید ہوتے رہیےکیونکہ مسئلہ فلسطین صرف کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا بہت ہی نازک اور 
حساس  مسئلہ ہے جس کو جاننا ہر فرد پر واجب ہے 

فلسطین کے جغرافیائی حدود

مسجد اقصٰی

 سر زمین فلسطین دنیا کے قدیم ترین سرزمین میں سے ایک ہے۔ اس کا رقبہ لبنان اور مصر کے درمیان پھیلا ہوا ہے
سر زمین فلسطین محل وقوع کے اعتبار سے براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحر متوسط کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اس خطے کو آج کل مشرق وسطیٰ بھی کہا جاتا ہے، شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیج عقبہ واقع ہے،جنوب مغرب میں مصر اور مشرق میں شام اور اردن سے اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔ جبکہ مغرب میں بحرمتوسط کا طویل ساحل ہے، فلسطین کا رقبہ حنفہ اور غزہ سمیت 27 ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔
فلسطین کے طبعی جغرافیائی خطوں میں فلسطین کا طویل ساحل جو ناقورہ سے لے کر رفح تک جنوب میں پھیلا ہوا ہے سرفہرست شمار کیا جاتا ہے۔ اس ساحل کے مشہور شہروں میں خان یونس،رملہ، عکا، یفاء، یافا اور غزہ ہیں۔ اسرائیل نے اپنا دارالحکومت بھی یافا کے شمال میں بنایا ہوا ہے، جبکہ پہاڑی سلسلوں میں نابلس، کرمل، خلیل اور القدس کے پہاڑی علاقے مشہور ہیں، واضح رہے کہ خلیل پہاڑ کے دامن میں خلیل شہر آباد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں مدفون ہیں۔ اس کے علاوہ قدس کے پہاڑوں میں سب سے اونچا پہاڑ جبل طور ہے، جس میں بیت المقدس کا علاقہ ہے، مسجد اقصیٰ اور قبة الصخرہ بھی اسی شہر کی زینت ہیں۔  اور بحر میت بھی اسی کے کنارے واقع ہے، اس علاقے میں 
اریحا نامی شہر ہے،جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ 


مختصر تاریخ 


سر زمین فلسطین شروع شروع میں کنعانیوں کے زیر تسلط رہا ہے ان ہی کی ایک شاخ نے القدس شہر کو آباد کیا ہے بعد میں عبرانیوں نے اسے اپنا مرکز بنایا , بہت سے انبیاء نے اسے اپنا مرکز بنایا, 580 ق م میں بخت نصر نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی,  70 ء میں ٹائئس نے اس پر قبضہ کر لیا,  دور عمری میں یہ اسلام سے آباد ہوا,  پھر چھٹی صدی ہجری میں صلیبوں نے اس پر قبضہ کر لیا لیکن صلاح الدین ایوبی نے 90 سال بعد اسے دوبارہ واپس لے لیا, 1948 تک یہ مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا اس کے بعد اس پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا اس کا پرانا نام یروشلم ہے اس میں بیت المقدس ہے جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کروایا تھا 

فلسطین کی اہمیت....... دینی تناظر میں


مسجد اقصٰی فلسطین

فلسطین مسلمانوں کے یہاں ایک بابرکات اور مقدس سرزمین ہے جو بطور قبلہ اولی ثالث الحرمین الشریفین اور سیکڑوں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے مدفن کے پہچانی جاتی ہے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ و سلم نے اپنی پوری مکی زندگی میں اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت برکت و عظمت کے حوالے سے اس کا تذکرہ کیا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم اور حسین تاریخ جس طرح مکہ مکرمہ سے جڑی ہوئی ہے اسی طرح سر زمین فلسطین سے جڑی ہوئی ہے 
یقینا دنیا میں پائے جانے والے تین بڑے مذاہب کی یادیں اسی سرزمین سے وابستہ ہیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی اور یہودی  شامل ہیں.
لیکن یاد رہے یہ سر زمین خدا کی توحید کا مرکز ہے یہ زمین انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی میراث ہے اس لئے اس انبیاء کی میراث کا حقدار محمد صلی علیہ و سلم ہوتے ہیں اور پھر ان کی امت ہوتی ہے

فلسطین میں اسلام کی آمد  



یہ سر زمین اسلام سے قبل عیسائیوں کا مرکز رہی لیکن درو عمری میں اس سرزمین نے اسلام کی بہار دیکھی تاریخ کے حوالے سے یہ سرزمین جنگ یرموک میں مسلمانوں کے زیر تسلط آئی جب شام کا علاقہ فتح کیا گیا تبھی یہ سرزمین بھی فتح کی گئی اس کے بعد مسلسل یہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہی لیکن تاریخ کا ایک وقفہ ایسا بھی آیا جب یہ کچھ سالوں کے لئے ان کے ہاتھوں سے نکل گئی عیسائیوں کا قبضہ ہو گیا پھر صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ سے اس کی بازیابی کی .اور یہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں آ گئی پچھلی صدی کے نصف تک یہ سر زمین اسلام کی آن بان شان رہی یہاں تک کہ آج اس پر یہودیوں کا تسلط ہو گیا 
یہودی طاقتوں کا قبضہ کوئی ایک دو جنگ سے نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے پیچھے گہری سازشیں ہیں کھلونے ہاتھ ہیں خطرناک کوششیں ہیں بڑی آبادی جانتی ہی نہیں اور نہ ہی وہ اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتی ہے 

یاد رکھیے مسلمانوں کی عروج و زوال کی حقیقت و حقانیت اس سے جڑی ہوئی ہے اگر مسلمان کو دیکھنا ہے کہ وہ عروج پر ہے تو فلسطین کو دیکھنا ہو گا اگر مسلمان کو دیکھنا ہے کہ وہ زوال پذیر ہے تو فلسطین کو دیکھنا ہوگا کہ کتنا اثر مسلمانوں کا اس سر زمین پر ہے جب آپ دیکھیں کہ اس سرزمین پر عیسائیوں, یہودیوں کا تسلط ہے تو سمجھ جائیے کہ مسلمان زوال و پستی کی جانب گامزن ہے 

اسرائیل کا وجود اور صیہونی تحریک 

Israel ka flag

یہ گندی اور انسانیت سوز تحریک 1897 سے شروع ہوئی ہے جب ایک بڑا سخت گیر یہودی زاینسٹ ہرزل نے ایک نئی مومنٹ شروع کی تھی جسے صہیونی تحریک کہا جاتا ہے اس تحریک کے بڑے خفیہ مقاصد تھے یہ تحریک مسلسل اپنا کام کرتی رہی اور اپنا اثر و رسوخ جماتی رہی.,دنیا کے بڑے بڑے ملکوں اور شہروں میں اس نے اپنا تسلط قائم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس پورے برطانیہ کو اپنے قبضے میں لے لیا یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ 1917میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ان سے ایک معاہدہ کیا جس میں یہ طے پایا کہ برطانیہ ان صہیونیوں کو فلسطین پر اسرائیلی ریاست قائم کر کے دینگے یہ وہ معاہدہ تھا جسے بالفور کہا جاتا ہے اس معاہدے کی بنیاد پر کوششیں شروع ہوئیں اور جب برطانیہ کا فلسطین سے نکلنے کا وقت آیا تو برطانیہ نے یہودیوں کو وہاں پر بسانا شروع کر دیا اس طرح دیھرے دیھرے 1948  تک اسرائیل نے فلسطین پر اپنا قبضہ جما لیا اس کے بعد
1947 اسرائیل کے حمایت میں کوششیں شروع ہو گئی تھیں, 1948 میں ایک جنگ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں عربوں نے ہزیمت کا سامنا کیا اور کیونکہ وہ پہلے ہی بریٹش اسعتمار, فرنچ اسعتمار اور پرتغیز استعمار سے نبرد آزما  تھے اور اپنی طاقت کھو بیٹھے تھے.اور ایک طرف خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہو چکا تھا پوری اسلامی دنیا چھوٹے چھوٹے ملکوں کے مابین بٹ چکی تھی, طاقت مٹ چکی تھی مر چکی تھی اور وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اس سر زمین کو حاصل کر لیتے یہی وہ موقع تھا کہ یہودی پوری دنیا سے کھنچ کھنچ کر یہاں جمع ہونے لگے اس طرح فلسطین میں اسرائیل کا استعمار قائم ہو گیا.
1967 میں ایک اور جنگ ہوئی جو اسرائیل اور عربوں کے مابین ہوئی اس جنگ میں بھی مسلمانوں کو زبردست شکست ہوئی اور اکثر علاقوں میں اسرائیل کا قبضہ ہوگیا اور یہ قبضہ بڑھتا ہی گیا بڑھتا گیا یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے اندر جو میپ پاس کیا گیا اس میپ سے دس گنا زیادہ آج ان کا قبضہ ہوگیا ہے. 85 فیصد فلسطین آج اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا ہے. اور فلسطین کے آس پاس کے علاقے بھی ان کے زیر انتظام ہیں 
اسی کی ایک کڑی ہے مصر جس میں محمد مرسی کے انقلاب کو کچل دیا گیا کیونکہ وہ اسرائیل کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھا اسی طرح اردن ہے لبنان ہے شام ہے عراق ہے جہاں یہی کہانی دوہرائی گئی. اور انہیں آپسی اختلافات اور اندرونی خلفشار میں الجھا کر رکھا جاتا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین عربوں کے لئے اور مسلم امت کے لیے توجہ کا مرکز نہ بن جائے 

غزہ کی صورتحال 


اسرائیل نے پورے فلسطین پر اپنی سازشوں کے نتیجے میں غلبہ حاصل کرلیا ہے لیکن غزہ کی پٹی کو اپنے تسلط سے آزاد رکھا ہے لیکن وہ جس حال میں ہے اسے آپ تصور نہیں کر سکتے ہیں غربت و افلاس کی آخری حدیں ہیں پس مردگی اور زبوں حالی کی عجیب و غریب, داستان ہے غزہ کی پٹی کو ساری دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے ہے نہ تو رسد کا کوئی انتظام ہے اور نہ کسی طرح کی کوئی مدد کا وہ عرب جو وہاں آباد ہیں تنگ دستی کی آخری مثال ہیں, یہ ساڑھ تین سو میٹر کا علاقہ ہے جو ساری دنیا کا سب سے بچھڑا علاقہ ہے , ایک منظم سازش کے تحت اس خطے کو, وہاں رہنے والی قوم کو غربت و افلاس کی گھاٹیوں میں دھکیل دیا گیا 
اگر آپ دوسری طرف توجہ مبذول کریں گے تو اسرائیل کا علاقہ ترقی و خوشحالی, زرخیزی و شادابی کا بے مثال شاہکار ہے. وہاں کی سڑکیں وہاں کی عمارتیں وہاں کی پبلک پلیسز ساری دنیا کو دعوت نظارہ دے رہی ہیں 

عربوں کا کردار 


فلسطین کا تعلق عربی دنیا سے ہے اس لئے عربوں کو اس  مسئلہ کو حل کرنے کے لئے پیش پیش رہنا چاہیے تھا لیکن عرب ممالک کا کردار مسئلہ فلسطین کے تعلق سے سب سے زیادہ منافقانہ ہے, بے شک شروع میں عربوں کے اندر جو غیرت ایمانی اور حمایت اسلامی تھی اس کے تحت انہوں نے کوشش کی, لیکن بعد میں اسی غیرت کے ساتھ اس مہم کو زندہ رکھنے میں وہ کامیاب نہ ہو سکے وہ داخلی مسائل میں الجھا دیے گئے ان کے درمیان ایسے ایمان فروش پٹھو بٹھا دیے گئے, جو ہمیشہ اس مسئلہ کو ٹالتے رہے جس کی وجہ سے یہ کانفرنسوں اور محفلوں کی زینت ہی بن سکا, کوئی عملی اقدامات عرب ممالک کےجانب سے نہیں کیے گئے یہ وہ دلخراش داستان ہے جو اسی دنیا میں رچی گئی 

ڈیل آف سنچری 


سازشوں کا بازار گرم کرتے کرتے اب وہ وقت آگیا کہ معاہدوں اور مفاہمتی محفلوں کے ذریعے اس سرزمین کو مکمل طور پر حاصل کر لیا جائے,  اس کار کی شروعات صدر امریکہ ڈونلڈ پرمپ کے صدقے میں انجام پائی , ایک بہت بڑی ڈیل کی گئی جسے صفقۃ القرن یعنی ڈیل آف سنچری کہا گیا یعنی اس صدی کی سب سے بڑی ڈیل , جس کے تحت سعودی عرب, خلیج اور امارات کے بیشتر ممالک اس معاہدے میں شامل کیے گئے یہودیوں کے ساتھ تاکہ اسرائیل کے قبضے کو آسان بنایا جائے اور آنے والے وقت میں عرب فلسطین پر اپنا حق ہر گز نہ جتا پائے اسی معاہدے کے تحت یہ بھی طے ہوا کہ 1 جولائی 2020 تک اسرائیل بیت المقدس کے ساتھ پورے فلسطین پر قابظ ہو جائےگا بچے کچے فلسطینیوں کو ایک طرف دھکیل دیا جائے گا 

گوگل سے فلسطین کے نام کو ہٹانے کی وجوہات 

یہی وہ صورت حال ہے کہ آج میپ سے فلسطین کے نقشے کو ہٹا دیا گیا ہے, کیونکہ آنے والا کل ان کی نظر میں مکمل اسرائلی استعمار کا ہے, اصل بات یہ ہے کہ کبھی بھی میپ کے اندر فلسطین کے نقشے کو ڈالا ہی نہیں گیا ہے , 2019 میں جب یہ مسئلہ اٹھا تھا تو اس کے اسپوک پرسن نے یہ بات کہی تھی کہ فلسطین کبھی گوگل میپ پر رہا ہی نہیں شروع سے ہی اسرائیل کا نام رہا ہے اس لئے اسے کوئی  نیا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے 

دنیا کے اختتام  کی آخری کاروائی ارض فلسطین میں   


ہرمجدون کی جنگ 


مسلمان ,عیسائی اور یہودیوں کے نظریات میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ مسیحا کے ذریعے انسانیت کو نجات ملنے سے قبل ایک زبردست اور تباہ کن جنگ برپا ہوگی اس معرکہ عظیم میں جسے ام المبارک کہا جاتا ہے- میں کم از کم دو تہائی آبادی ملیا میٹ ہو جائے گی یہ دو تہائی آبادی کون ہوگی اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے یہ فیصلہ فلسطین کے قریب ہر مجدون کی ودای میں ہوگا جسے اہل مغرب آرمیگاڈون کہتے ہیں یہ سر زمین آج اسرائیل کے قبضے میں ہے 

دجال کے تین سوال


صحابی رسول حضرت تمیمم داری رضی اللہ عنہ نے دجال کے بارے میں جو حدیث بیان کی تھی اس میں دجال نے جو تین سوال کیے تھے ان تینوں کا تعلق ارض فلسطین سے ہے 

1.                     بیسان کے باغوں میں پھل آتے ہیں یا نہیں 
2                         طبریہ جھیل میں پانی ہے یا نہیں 
3.             زغر چشمے سے لوگ کھیت سیراب کرتے ہیں یا نہیں     


بیسان کا باغ 


بیسان فلسطین میں ایک جگہ کا نام ہے جو دور عمری میں حضرت شرجیل بن حسنہ نے فتح کیا گیا ,سقوط عثمانیہ کے بعد سے یہ اردن کا حصہ تھا اب اسرائیل کے قبضے میں ہے. 

طبریہ جھیل 


یہ اسرائیل کی مشہور جھیل ہے اس کا محل وقوع اردن کے سرحد کے قریب ہے 

زغر کا چشمہ 

در اصل زغر حضرت لوط علیہ السلام کی صاحبزادی کا نام ہے ان کی دو صاحبزادی تھیں , ربہ اور زغر.  زغر کے انتقال کے بعد انہیں اس جگہ دفنایا گیا جہاں ایک چشمہ تھا اس کے بعد سے اس چشمہ کا نام زغر پڑھ گیا یہ جگہ بھی اب اسرائیل میں ہے. 

دجال کا خروج اور اس کی موت ارض فلسطین  میں


فلسطین کا شہر ہے لد یہ بھی ایک تاریخی شہر ہے اب یہ اسرائیل کے زیر انتظام ہے یہیں پر دجال ظاہر ہوگا , باب للد پر اسرائیلی افواج نے لکھ رکھا ہے ھنا یخرج ملک السلام  یہاں سلامتی کا بادشاہ ظاہر ہو گا یعنی دجال  
دجال کا اختتام بھی یہیں پر ہوگا ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے اور باب اللد پر پا لیں گے 


حضرت عیسٰی علیہ السلام اور امام مہدی بھی اپنی کاروائی اسی سر زمین پر انجام دیں گے 

یہ ہے حقیقت ارض فلسطین کی . ہر شخص کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے 


اس سائٹ کی دوسری مشہور تحریریں کلک کرکے ضرور پڑھیں 
.

2 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

  1. بہت عمدہ تحریر ہے بھائی۔آپ نے فلسطین کی تاریخ روز روشن کی طرح عیاں کر دی۔اور ہمیں اس کی تاریخ سے آشنا کرا دیا

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی