بوسنیا میں مسلمانوں کا قتلِ عام

آج کے دن روس سے آزادی حاصل کرنے والی مسلم ریاست بوسنیا کے شہر سربرنیکا میں عیسائی سربوں نے اقوام متحدہ کی افواج کی موجودگی میں مسلمانوں کی کھلے عام نسل کشی کی ، آج وہاں مسلمان اقلیت میں شمار کئے جاتے ہیں.

بوسنیا کے قصبے سریبرینکا میں آج سے 26 سال پہلے 11 جولائی کو سرب ملٹری کمانڈر راٹکو ملاڈک ایک ویڈیو میں نمودار ہوا اور کہا "ہم یہ قصبہ سرب قوم کے حوالے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں سے انتقام لیا جائے"

اور یوں بوسنیا میں یورپ کی تاریخ کا بدترین قتلِ عام شروع ہوا جو 11 جولائی سے 16 جولائی تک جاری رہا اور جس میں 8000 سے زائد مسلمان انتہائی بےدردی سے قتل کر دئیے گئے۔ ہزاروں عورتوں کی عزتیں ان کے گھر والوں کے سامنے لوٹی گئیں۔ قاتلوں نے قتل کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا کہ مقتولوں کو مارنے سے پہلے ذلیل کیا جائے۔ سرب فوج کے بوسنیا کے اس قصبے پہ حملے اور بوسنیا کے مسلمانوں کے قتلِ عام کے دوران اقوام متحدہ کی نگرانی میں امن فوج خاموش تماشائی بنی رہی۔ رپورٹس کے مطابق 2000 کے لگ بھگ لوگوں نے اقوامِ متحدہ کی امن فوج کے کمپاؤنڈز میں پناہ لینے کی کوشش کی تو انہیں زبردستی باھر نکال دیا گیا اور سرب کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا۔ 1993 میں یہ علاقہ اقوامِ متحدہ نے "مکمل محفوظ" قرار دیا تھا اور 1995 میں بوسنیا کے مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا جسے یورپ میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد دوسری بڑی نسل۔کشی (genocide) تسلیم کیا گیا ہے۔ اب

بوسنیا میں مسلمانوں کا دردناک قتلِ عام انسانیت شرمسار
بوسنیا میں صرف دس دنوں میں 8000 سے زائد مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا 



ہر سال اس قصبے میں سربرینیکا میں قتل ہونے والوں کی نئی لاشیں ملتی ہیں اور ہر سال لوگ خصوصا خواتین اپنے باپ، بھائی اور بیٹوں کی یاد منانے جمع ہوتے ہیں۔

یہاں ایک اہم نقطہ کہ سربرینیکا کی آبادی اس قتلِ عام سے پہلے بوسنین مسلم اکثریتی تھی لیکن اب وہاں سرب اکثریت میں ہیں اور اکثریت میں ہونے کی وجہ سے سیاست اب سربوں کے ہاتھ میں ہے۔ سریبرینکا کے نئے سرب مئیر واضح شواہد کے باوجود سریبرینکا میں بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کا مکمل انکار کرتے ہیں۔

ھیگ میں قائم اقوام متحدہ کی جنگی جرائم کی عدالت میں اب تک صرف چند درجن افراد کو اس نسل کشی میں ملوث ہونے کے جرم میں قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں ۔

بوسنیا قتل عام یورپ کی تاریخ کا وہ گھناؤنا قتل عام ہے جس نے یورپ کی انسانیت سوز ذہنیت کو پورے عالم کے سامنے بے نقاب کر دیا اور یہ قتل عام مسلمانوں کے دل پر وہ کاری زخم لگا گیا ہے جس کی تکلیف آج بھی ہر فرد کے دل پر دستک دے رہی ہے , بوسنیا مسلم نسل کشی جنگ عظیم دوم کے بعد سے آج تک کی سب سے بھیانک نسل کشی ہے جس سے مسلم خون آلود تاریخ وابستہ ہے اور اقوام متحدہ کے دامن میں وہ بدنما دھبہ ہے جسے کسی طرح زائل نہیں کیا جاسکتا آج بھی بے بس بوسنیائی بیوا خواتین انصاف کی دہائی دنیا کی ہر عدالت میں دے رہی ہیں لیکن ہر طرف عدل و انصاف کے لٹیروں کا قبضہ ہے  , انسانیت کے جھوٹے خدا انصاف کا نام سنتے ہی لرزہ براندام ہوجاتے ہیں. 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی