موسم گرما میں جانوروں کے ساتھ ہمدردی:اسلام کی رحمت عامہ جانوروں کو بھی شامل ہے

قارئین کرام! 

موسم گرما کی دھمک فضاؤں میں سنائی دینے لگی ہے ہر طرف چلچلاتی دھوپ کا ڈیرہ ہے اور بلبلاتی روحوں کا نظارہ ہے ایسے میں رمضان کے بابرکت مہینے نے بھی اپنی دستک دے دی ہے جس سے اہل ایمان کے قلوب روحانی ذکر سے سیراب اور انکی زبانیں قرآنی تلاوت سے معطر ہیں, یقیناً یہی وہ وقت ہے جس میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور رحمت و دل بستگی کے ذریعے نیکیوں کا پہاڑ کھڑا کر سکتے ہیں لیکن اسلامی رحمت صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ جانور بھی اس باب میں شانہ بشانہ شامل ہیں, جس طرح انسان اس موسم میں شکستہ دل ہوجاتا ہے اسی طرح جانور بھی گرمی سے بے چین ہو جاتے ہیں, جس طرح رمضان میں ہم اپنا خاص خیال رکھتے ہیں تو وہیں پیاسے , بھوکے اور پریشان حال جانوروں کا بھی خاص خیال رکھیں کیونکہ کے یہ بے زبان ہیں یہ بول نہیں سکتے اور ان کے جابجا حقوق شرعت اسلامی میں موجود ہیں جس سے ہماری ذمہ داری دوگنی ہو جاتی. 

اسلام ہر ذی روح پر رحم کرنے کی ہدایت کرتا ہے یہاں تک کہ بے زبان جانوروں کے ساتھ بھی سنگدلانہ برتاؤ ناپسندیدہ عمل ہے

 اسلام نے تین سو سال پہلے جانوروں کے ساتھ نرمی برتنے کی تعلیم دی تھی اس کے نزدیک جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ایمان کی ایک شاخ ہے اور اس کو اذیت پہنچانا اس سنگدلی برتنا یہ عمل آدمی کو دوزخ کا مستحق بناتا ہے.

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنھم کو ایک واقعہ سنایا کہ ایک شخص نے کتے کو دیکھا جو پیاس کی شدت سے بے دم ہو رہا تھا وہ شخص یہ دیکھ کر خود کویں میں اتر گیا اور اپنے موزے میں پانی بھر کر لایا اور اس کتے کو پلا دیا یہاں تک کہ وہ سیراب ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے اس کی خدمت گزاری کی قدر کی اور اس کی مغفرت فرمائی صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہمارے لئے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں بھی اجر ہے فرمایا 

في كل كبد رطبة اجرُ

ہر جگر یعنی جاندار کے ساتھ حسن سلوک کرنا باعث اجر ہے اس روشن نیک پہلو کے ساتھ جو مغفرت الہی کے حصول کا ذریعہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے پہلو کی بھی نشاندہی فرمائی ہے جو اللہ کے غضب اس کے عذاب کا موجب ہے فرمایا

  دخلت امراه النار في هرۃ حبستها فلا هي اطعمتها ولا هي تركتها تاكل من خشاش الارض, ایک عورت کو اس وجہ سے آگ میں داخل کر دیا گیا ہے اس نے ایک بلی کو بند کر رکھا تھا نہ اسے کچھ کھلاتی تھی اور نہ کھلا چھوڑتی تھی کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے.

حیوان کے حیوانیت کا احترام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ فرماتے تھے کہ گدھے کے چہرے پر داغ دینا بھی گوارا نہیں فرمایا ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کو دیکھا جس کے چہرے پر داغ دیا گیا تھا تو بڑی ناگواری کا اظہار کیا اور فرمایا

والله لا اسمه الا في اقصى شيء من الوجه 

ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک گدھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا جس کے چہرے پر داغ دیا گیا تھا تو آپ اسے دیکھ کر فرمایا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانور کے چہرے پر داغ دے یا اس کے چہرے پر مارے.

  سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے تیر اندازی سیکھنے کے لیے مرغی کو ہدف بنایا ہوا ہے تو آپ نے یہ دیکھ کر فرمایا ان النبي صلى الله عليه وسلم لعن من اتخذ شيئا فيه الروح غرضا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی ذی روح کو نشانہ بازی کے لیے ہدف بنا لے اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن التحريش بين البهائم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو مقابلہ بازی میں لڑانے سے منع فرمایا ہے.

اہل جاہلیت جانوروں کے کان چیرا کرتے تھے قرآن نے اس کی بھی مذمت کی ہے اور اسے  شیطانی وساوس سے تعبیر کیا ہے 

 اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اس بات کا کس قدر خیال کرتا ہے کہ ذبح کرنے کا زیادہ سے زیادہ راحت کا طریقہ اختیار کر کے ذبیحہ کو آرام پہنچایا جائے چنانچہ اس سلسلے میں اسلام نے تیز چھری کو استعمال کرنے اس کو جانور کی نظر سے چھپانے اور دوسرے جانوروں کے سامنے اس کو ذبح نہ کرنے کی ہدایت کی ہے

 جانوروں پر اسلام کی اس درجہ عنایت و مہربانی جو تصور سے بالاتر ہے ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اس لئے ہمیں بھی جانوروں کا ہر درجہ خیال کرنا چاہیے اورخاص طور پر موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں,

 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی